Visit Our Official Web ٹرمپ فلسطین امن منصوبہ: تاریخ، حقائق، متوقع نتیجہ اور ردِ عمل Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

ٹرمپ فلسطین امن منصوبہ: تاریخ، حقائق، متوقع نتیجہ اور ردِ عمل


 تحریر :  میجر (ر) ساجد مسعود صادق

ناجائز اسرائیلی ریاست قائم کرنے والوں کو فلسطینوں پر واقعی رحم آگیا ہے  یا ٹرمپ امن منصوبہ کوئی اور ہی گیم پلان ہے یا  اس منصوبے  کا مقصد وہ نہیں جو سامنے نظر آرہا ہے؟ اس منصوبے کے بیس نکات پر خوب غوروفکر کی ضرورت ہے۔ کہیں   ناجائز اسرائیلی ریاست  کو تسلیم کروانا،اسرائیل کے خلاف لڑنے والی واحد  مسلح اپوزیشن کو  غیر مسلح کرنا اور پورے  فلسطین کو امن کے سنہرے خواب کی آڑ میں ہڑپ کرنا اس منصوبے کے  ممکنہ اہداف تو نہیں ہیں؟ لہذا اس منصوبے کا ہر نکتہ غور طلب ہے۔ امن کی توقع  رکھنا اور وہ بھی  امریکہ یا اسرائیل  سے کس کم فہم  اور عقل سے عاری شخص کے لیئے ٹھیک ہے ورنہ ٹرمپ، ٹونی اور یاہو ٹرائیکا سے خیر  کی توقع ہی فضول ہے۔ اس  امن منصوبے کو سمجھنے کے لیئے جو کارآمد ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ  مسلمان ممالک بالخصوص پاکستانی قیات یہ کام نہ کرے کہ "چور نالوں پنڈ کاہلی" یعنی چور کے ساتھ چوری کا سامان جانے کی جلد بازی نہ کرے۔ ٹرمپ ایک بزنس مین ہے وہ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتا اور ٹونی ایک مّکار اور عیّار شخص ہے اور یاہو ایک جلاد لہذا اس معاملے میں تدبّر ضروری ہے۔

کسی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو ضرب المثل اور محاوروں  کی مدد سےسمجھنا اورسمجھانا ادیبوں اور ادب سے شغف رکھنے والوں کی عام رِیت ہے۔  فلسطین اور اسرائیل تنازعہ کا پس منظر اور تاریخ  کیاہے؟ ٹرمپ کا فلسطین امن منصوبہ کیا ہے؟ اور پاکستانی وزیراعظم اس کی حمایت کیوں کررہے ہیں؟ ان تینوں سوالوں کا جوابات کو  چند پنجابی محاوروں سے  بہترین سمجھا جاسکتاہے۔ جنگ عظیم دوم کے فوراً بعد اسرائیلی ریاست کا فلسطینی علاقے میں زور زبردستی سے  قیام،   فلسطین کا  دن بدن سُکڑتے جانا،  اسرائیل کا پھیلتے پھیلتے فلسطینوں کو  انہی کے دیس سے نکال باہر کرنا، اسرائیل بربریت پر مغربی دُنیا بالخصوص امریکہ کی حمایت، مُسلمانوں کی بے بسی اور بےحسی کی ستر سالہ تاریخ  بڑی دردناک ہے۔ صاحب شعور اور دردِ دل رکھنے والوں نے فلسطینوں پر جو ستر سال میں قیامتیں آئیں ان کا خوب مشاہدہ کیا ہے۔   حقیقت یہ ہے کہ مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر  اقوام عالم  کے عوام اسرائیلی بربریت پر ہر طرف سے تُھو تُھو کررہے تھے جس   سے بچنے کے لیئے کُچھ نہ کُچھ کرنا ضروری ہوگیا تھا۔

  تاریخ بتاتی ہے کہ یاہو اور  ٹرمپ ٹونی ٹرائیکا کے پورکھوں نے ہی یہ مسئلہ پیدا کیا تھا کیونکہ امریکہ اور برطانیہ کی ملی بھگت سے ہی یاہو کے آباؤ اجداد فلسطینی علاقے میں زبردستی گُھس کر قابض ہوئے۔ گویا یہ ٹرائیکا اسرائیل کی ناجائز ریاست کے وقت بھی اکٹھا تھا اور مُسلمان بھی اُس وقت کی طرح آج بھی تتر بتر اور امریکی ہمنوائی اور مدسراحی کی عالم میں ہیں۔ٹرمپ  امن منصوبہ  جسے بیس پوائنٹس میں بیان کیا گیا ہے اس کے تجزیے کے دوران پہلا پنجابی محاورہ  جو ذہن میں آتا ہے وہ ہے  "چور تے کُتی رَل گئے۔" یہ محاورہ اُس جگہ استعمال ہوتا ہے جب کسی کے گھر کے لُٹنے کی منظر کشی کی جائے۔ اس منصوبہ میں فلسطینیوں کے حق پر ڈاکہ کے کردار میں پہلا کردار  چور کا ہے جس میں نیتین یاہو، ٹونی بلیئر اور ٹرمپ تینوں کو شمار کیا جاسکتا ہے دوسرا کردار کُتی کا ہے۔ کُتا عموماً گھر کی رکھوالی کے لیئے استعمال کیا جاتا جو چوروں کے خلاف کام آتا ہے۔ فلسطینی حق کے لیئے مُسلمانوں نے لڑنا تھا لیکن وہ دھڑا دھڑا ٹرمپ کے گھناؤنے اور فلسطینوں کے حق پر ڈاکے پر مبنی  امن منصوبے کی حمایت کررہے ہیں گویا یہ چوروں کے ساتھ مل گئے ہیں۔

مسئلہ فلسطین کی تاریخ کو سمجھنے کے بعد  اب ضروری ہے کہ اس امن منصوبے کا محاورے  کی مدد سے پوسٹ مارٹم کیا جائے اس کے لیئے سب سے مناسب محاورہ جو ذہن میں آتا ہے وہ "انھا ونڈے ریوڑیاں مُڑ مُڑ کے اپنیاں نُوں۔" یہ محاورہ وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں منصف کسی کی حق تلفی کرتے ہوئے اپنے رشتے داروں اور تعلق داروں کو نوازے۔ اب کوئی ارباب اختیار سے سوال کرے کہ  وہ امریکہ اور برطانیہ جنہوں نے یہ مسئلہ پیدا بھی کیا اور ستر سال سے اسرائیلی بربریت کی بھرپور حمایت بھی کی ان سے  فلسطینیوں کو حق دلوانے کی اُمید کرنا کوئی دانش مندی ہے جس کی حمایت کرنے میں آپ کو جلدی پڑی ہے؟ ٹونی بلیئر تو وہ کرمنل ہے جو جھوٹے پراپیگنڈے اور عراقیوں کے قتل کا سب سے بڑا مُجرم ہے اور ٹرمپ بھی وہ جارح ہے جو ایران پر اسرائیلی حمایت میں میزائل اور بم مارنے والا ہے۔ ان دونوں سے یہ توقع رکھنا ہی فضول ہے  کہ وہ  اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کی بجائے مظلوم فلسطینیوں کو امن دینا چاہتے ہیں۔ اب  ٹرمپ امن منصوبے کو تسلیم کرنے والی عقل پر ماتم نہ کیا جائے  تو اور کیا کیا جائے۔ 

تیسرے سوال یعنی "مُسلمان حکمران اس کو ماننے میں جلد بازی کیوں کررہے ہیں" اس کا جواب سمجھنے کے لیئے دو بڑے خوبصورت پنجابی محاورے ذہن میں آتے ہیں۔ پہلا محاورہ یہ ہے کہ"جیہدی باندری اوہو ای نچاوے۔" اور دوسرا محاورہ  "رب نیڑے کہ گُھسُنّ۔"  مجموعی طور پر مُسلمان اُمہ کے ممالک کا یہ حال ہے کہ اُن  کو حکمرانی کا شرف بھی  امریکی نظر عنایت کی عطا اور خیرات ہے۔    امریکہ اور امریکی صدر بین الاقوامی سیاست کے بدمعاش یعنی  "دادا" ہیں لہذا اُن کا خوف اور خوشنودی کونسا حکمران نہیں چاہے گا۔ اب مُسلمان حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ "سپاں دے پُتر مِتّر نہیں ہوندے۔"   امریکی صدر کی دوستی پر نازاں ہونے والوں مُسلمانوں کو  جانناچاہیئے کہ جیسے دُشمن کبھی معاف نہیں کرتا اسی طرح  سانپ کی فطرت میں بھی ڈنگ مارنا ہی ہے۔  امریکہ برطانیہ اور  اسرائیل سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مُسلمانوں کے خیرخواہ ہیں کسی "دیوانے کے خواب سے کم نہیں" کیونکہ ماضی میں پاکستان سمیت  کونسا  ایسا مُسلمان مُلک ہے جو مغربی سامراج کے ظُلم و جبر کا تختہ مشق نہیں بنا؟


Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url