ڈیرہ غازیخان ۔وزیر اعلی کا دورہ اور پھاپل مائی
احمد خان لغاری
پنجاب کی وزیر اعلی محترمہ مریم نوازشریف نے ڈیرہ غازیخان کا دورہ کیا۔ اس دورہ میں انہوں ڈیرہ غازیخان ڈویژن کےلئے تقریبا ایک سو الیکٹرک بسیں حکام کو حوالے کیں چوبیس بسیں ضلع ڈیرہ غازیخان کی عوام کےلئے مختص کی گئی ہیں۔ بسوں کو جب شہر کی مخصوص سڑک پر لایا گیا تو ایک خوبصورت نظارہ پیش کررہی تھیں، مگر مبینہ طور پر بسوں کے استقبال کےلئے سڑک کے کنارے سرکاری ملازمین خیر مقدمی نعرے بلند کررہے تھے ان ملازمین میں اساتذہ کرام کی ایک بڑی تعداد بیان کی جارہی ہے ۔ ڈیرہ غازیخان ضلع کے مختلف روٹوں پر جس میں کوٹ چھٹہ چوٹی شاہ صدردین اور دیگر علاقوں میں عوام کی سہولت کیلئے رواں دواں ہیں ۔ کم کرایے میں آرام دہ سفر عام آدمی کو میسر ہے۔ وزیر اعلی یا اہم سیاسی وسرکاری شخصیت کے آنے پر عوامی تکلیف اب کوئی نئی بات نہیں ہے، اہم شاہرائوں کو عام آدمی کےلئے بند کردینا اور دیر تک لوگوں کو کھڑا رکھنا اب عادت بن چکی ہے۔ سابقہ حکومت کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار بھی اکثر اپنے شہر تشریف لاتے تھے ، چونکہ وہ اس شہر میں رہتے تھے لہذاان کا آنا شہریوں کےلئے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا تھا، انہوں نے بھی ڈیرہ غازیخان کی سڑکوں پر عوامی سہولت کے طور پر بسیں مہیا کی تھیں جو بعد ازاں کم ہوتے ہوتے وزارت اعلی ختم ہونے پر گاڑیاں سڑکوں سے غائب ہوگئیں۔ وزیر اعلی پنجاب نے بسوں کے افتتاح کے موقع پر ایک جلسہ سے خطاب بھی کیا جسمیں لغاری گروپ اور مسلم لیگی کارکنان نے شرکت کی۔ ہر ایم این اے ، ایم پی اے اور سیاسی شخصیت نے جلسے کو کامیاب بنانے کےلئے بھرپور کوشش کی۔ مقامی ایم پی اے محمد حنیف پتافی نے جلسے کی کامیابی کےلئے ان تھک محنت کی کیونکہ ان کے بھائی ڈاکٹر شفیق پتافی شہر کی خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست کے ضمنی انتخاب میں امیدوار ہیں اور وہ پریقین ہیں کہ وہی مسلم لیگ کے امیدوار ہونگے وزیر اعلی کے جلسے میں سردار اویس خان لغاری نے میدان مارلیا اور جلسہ کی کامیابی کا سہرا اپنے سرسجا لیا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ شولغاری گروپ کا تھا توغلط نہ ہوگا۔ اگرچہ جلسے میں کوئی بڑا اعلان نہیں ہوا جیساکہ عوامی مطالبہ ہے کہ کینسر ہسپتال بنایاجائے ۔
ڈیرہ غازیخان اور مضافاتی علاقوں میں کینسر جیسا مہلک مرض تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اور کئی گھرں کے ایک سے زائد نوجوان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اسی طرح غازی گھاٹ پل کا بھی مطالبہ دیرینہ ہے لیکن اس کا ذکر اور کام نظر نہیں آرہا۔ ضلعی انتظامیہ نے شہر کے قرب و جوار میں کینسر ہسپتال کی تعمیر کےلئے مناسب رقبہ تجویز کیے ہیں لیکن تاحال حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔ سردار اویس خان لغاری ایسی پوزیشن میں ہیں کہ وہ جہاں چاہیں اسی جگہ پر کینسر ہسپتال کی تعمیر شروع ہوسکتی ہے ۔ حلقہ قومی اسمبلی کے امیدوار سردار محمود قادر خان لغاری جنہیں مسلم لیگی قیادت نے بلوا کر ضمنی انتخاب میں حصہ لینے پر آمادہ کیا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہی مسلم لیگی امیدوار ہیں اور وہی منتخب ہونگے ۔ انہوں نے برملا اظہار کیا کہ قیادت کا فیصلہ حتمی ہوگا جسے امیدوار نامزد کیا جائیگا دیگر امیدوار دستبردار ہو جائیں گے ۔ انہوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ کینسر ہسپتال ہر صورت میں بنے گا ہم ڈیرہ غازیخان کے لوگوں کو اسطرح بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے کینسر ہسپتال کوئی انتخابی نعرہ نہیں ہے یہ ہر صورت میں تعمیر ہو کر رہے گا۔اگر انہیں اس ہسپتال کےلیے خود بھی بیڑا اٹھانا ہوا تو اٹھا ئیں گے اور ذاتی طور پر اسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنا کر دم لیں گے ۔ وزیر اعلی پنجاب کے اس جلسہ میں مسلم لیگ کے لغاری گروپ کا غلبہ رہا اور مقامی ایم پی اے محمد حنیف پتافی کو بھی دور رکھا گیا تاکہ یہ تاثر قائم رہے کہ ڈیرہ غازیخان میں صرف لغاری گروپ ہی مسلم لیگ ہے اور ضمنی انتخاب میں ان کا ہی امیدوار کامیاب ہوگا۔ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کو اسٹیج پر ایک خوبصورت کڑھائی والی چادر دوپٹہ پیش کیا گیا اور محترمہ نے ڈیرہ غازیخان کی اس بوڑھی خاتون پھاپل مائی کا نام لیا کہ یہ خصوصی طور پر ان کے لیے بنایا گیا ہے جو پیش کیا گیا ہے ۔ سردار جمال خان لغاری نے کہا ہے کہ اماں پھاپل ایک بوڑھی خاتون ہے جو کڑھائی کا کام کرتے اب اپنی بینائی کھورہی ہیں خصوصی طور پر محترمہ کےلیے بنایا تھا جو انہیں پیش کیا گیا ہے ۔ اماں پھاپل کی طرف سے بیش بہا تحفہ پیش کرنے پر وزیر اعلی بہت خوش نظر آرہی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی پھاپل مائی ہے بھی کہ نہیں ہے لیکن سیاسی جلسوں میں ایسی کاروائیاں جلسے کی منتظمین کی بہت جیت اور کامیابی سمجھی جارہی ہےکہ اس چادر یا دوپٹے نے محترمہ وزیر اعلی کو کسی دوسرے امیدوار ضمنی انتخاب کی طرف توجہ دینا بھی گوارہ نہیں کیا بلکہ وہ نظر انداز نظر آئے۔ اب ڈھونڈتے رہیں اس اماں پھاپل کو چراغ رخ زیبا لیکر! ہوسکتا ہے ضمنی انتخاب میں یہی پھاپل مائی اور اسکی طرف سے پیش کی گئی شال یا دوپٹے کی حقیقت سامنے آجائے۔ سیاست میں کھیل ، کھلاڑی اور وقت کی اپنی اہمیت ہوتی ہے جو اس وقت لغاری گروپ کی اہمیت واضع ہے ۔