بوسنیا کی جنگ اور پاکستان کا وہ تاریخی کردار جس نے ایک قوم کو نئی زندگی بخشی
تحریر و تحقیق : عمر مختار رند
ایک پرامن ملک کی تباہی اور دنیا کی خاموشی
یورپ کے دل میں واقع سرسبز وادیوں اور پہاڑوں کا ملک بوسنیا و ہرزیگووینا کبھی تہذیبوں کے سنگم کے لیے مشہور تھا۔ یہاں مسلمان، سرب اور کروآٹ برادریاں صدیوں سے امن کے ساتھ رہتی تھیں۔ مگر 1992 میں یوگوسلاویہ کے انہدام کے بعد جس وحشت نے جنم لیا، اس نے جدید یورپی تاریخ کے بدترین انسانی المیے کو جنم دیا۔ بوسنیا کی جنگ صرف ایک علاقائی تنازع نہیں تھی، بلکہ یہ نسل کشی، اجتماعی ریپ اور انسانی تہذیب کے لیے ایک چیلنج تھی۔
جیسے ہی بوسنیا نے آزادی کا اعلان کیا، سرب قوم پرستوں نے جوابی کارروائی شروع کی۔ ان کے ہدف پر مسلمان آبادی تھی۔ ہزاروں گھر نذر آتش کیے گئے، مساجد مسمار ہوئیں، تاریخی لائبریریاں خاکستر ہوئیں۔ لیکن سب سے ہولناک باب وہ تھا جب ریپ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اندازے بتاتے ہیں کہ 20,000 سے 50,000 خواتین کو منظم طریقے سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اقوام متحدہ کی ناکامی اور عالمی ضمیر کی موت
دنیا کی طاقتیں اس المیے کو دور سے دیکھتی رہیں۔ اقوام متحدہ نے کئی قراردادیں منظور کیں، پابندیاں لگائیں، امن کے لیے کوششیں کیں، مگر زمینی حقائق بدستور دہشت گردی کے سائے میں تھے۔ یو این پیس کیپرز کا کردار متنازعہ رہا، خاص طور پر سربرینیکا کے قتل عام کے موقع پر جب ڈچ پیس کیپرز مسلمانوں کو سربوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوئے۔
11 جولائی 1995 کو سربرینیکا میں جو کچھ ہوا، وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا بدترین انسانی المیہ تھا۔ صرب فوج کے کمانڈر جنرل راتکو ملادیچ نے 8,000 سے زائد مسلمان مردوں اور لڑکوں کو الگ کر کے انہیں قتل کر دیا۔ عورتیں اور بچے بے یار و مددگار تھے۔ اس موقع پر بھی عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی۔
ایسے میں پاکستان نے وہ تاریخی فیصلہ کیا جس نے بوسنیا کی جنگ کے تناظر ہی کو بدل دیا۔ جب اقوام متحدہ نے اضافی پیس کیپرز کی درخواست کی تو پاکستان سب سے پہلے آگے بڑھا۔ یہ فیصلہ محض سفارتی یا فوجی نہیں تھا، بلکہ اس کی جڑیں پاکستان کے قیام کے فلسفے میں تھیں۔ پاکستان نے خود کو مسلم امت کا حصہ سمجھتے ہوئے بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کو اپنا فرض سمجھا۔
پاکستانی فوجی دستے جب بوسنیا پہنچے تو منظر حیرت انگیز تھا۔ بوسنیائی عوام نے ان کا استقبال گمشدہ بھائیوں کی واپسی کے طور پر کیا۔ سڑکوں پر خوشی کے مارے لوگ نکل آئے۔ ایک بزرگ نے بتایا، "ہم سمجھتے تھے کہ پوری دنیا نے ہمیں بھلا دیا ہے، مگر پاکستان نے ثابت کیا کہ امت مسلمہ ابھی زندہ ہے۔"
پاکستانی فوج کا منفرد کردار: ہمت اور انسانیت کا امتزاج
پاکستانی پیس کیپرز نے وہ کارنامے انجام دیے جو یو این کی تاریخ میں مثال بن گئے۔ جہاں دوسرے ممالک کے فوجی خطرناک علاقوں میں جانے سے گریز کرتے تھے، پاکستانی جوان جان خطرے میں ڈال کر بھی انسانیت کی خدمت کے لیے آگے بڑھتے تھے۔
کلیدی کارنامے
1. ریپ کیمپوں سے نجات پاکستانی فوجیوں نے متعدد ریپ کیمپوں کو ختم کر کے سینکڑوں خواتین کو آزاد کرایا۔
2. محفوظ زونز کا قیام انہوں نے خطرناک علاقوں میں محفوظ زونز قائم کیے جہاں مہاجرین کو پناہ ملی۔
3. انسانی ہمدردی پاکستانی فوجی نہ صرف حفاظت فراہم کرتے تھے بلکہ اپنی راشن بوسنیائی بچوں اور خواتین میں بانٹتے تھے۔
4. جانی قربانیاں سات پاکستانی جوان بوسنیا کی سرزمین پر شہید ہوئے، جن میں میجر عامر حیات بھی شامل تھے جنہوں نے ایک بوسنیائی بچے کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔
بوسنیا میں پاکستانی شہداء: ہمیشہ زندہ رہنے والی یادیں
بوسنیا کی سرزمین پر پڑی پاکستانی شہداء کی قبریں آج بھی دونوں قوموں کے درمیان محبت کا مضبوط رشتہ ہیں۔ ہر سال بوسنیائی عوام ان قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں۔ یہ قبریں محض چند پتھر نہیں، بلکہ ایک ایسے رشتے کی علامت ہیں جو خون اور قربانیوں سے لکھا گیا۔
پاکستانی مدد کا تناظر: سفارتی، فوجی اور انسانی پہلو
پاکستان کی بوسنیا میں مدد محض فوجی تعاون تک محدود نہیں تھی۔ پاکستان نے
- بین الاقوامی فورموں پر بوسنیا کی آزادی کی حمایت کی
- بوسنیائی پناہ گزینوں کے لیے مالی امداد فراہم کی
- بوسنیائی طلبہ کے لیے پاکستان میں تعلیمی اسکالرشپس کا اعلان کیا
بوسنیا کی جنگ کے اعداد و شمار المناک حقیقت
- جنگ کا دورانیہ 1992-1995
- ہلاکتیں تقریباً 100,000 (80% مسلمان)
- بے گھر 20 لاکھ سے زیادہ
- ریپ کے واقعات 20,000-50,000 خواتین
- جنگی جرائم کے مرتکبین: 161 افراد کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں سزا
- پاکستانی فوجیوں کی تعداد: تقریباً 3,000
- پاکستانی شہداء: 7
پاکستان اور بوسنیا کے تعلقات جنگ کے بعد کا دور
جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بوسنیا کے تعلقات مستحکم ہوتے گئے۔ بوسنیائی پارلیمنٹ نے پاکستان کے شہریوں کے لیے ویزا فری انٹری کا اعلان کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدے ہوئے، اقتصادی شراکت داری قائم ہوئی۔ آج بھی بوسنیا میں پاکستان کو بے حد عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
تاریخی اسباق اور موجودہ تناظر
بوسنیا کی جنگ سے کئی اسباق ملتے ہیں
1. عالمی برادری کی طرف سے مظلوم مسلمانوں کی مدد میں ناکامی
2. پاکستان کا مسلم امہ کے ساتھ مضبوط رشتہ
3. انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیے گئے اقدامات کی طویل مدتی مثبت اثرات
آج جب کشمیر، فلسطین، میانمار اور دیگر خطوں میں مسلمان مظلوم ہیں، بوسنیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ پاکستان کس طرح بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اپنے اصولوں پر قائم رہ سکتا ہے۔
انسانی تاریخ کا ایک روشن باب
بوسنیا کی جنگ میں پاکستان کا کردار صرف ایک فوجی یا سفارتی عمل نہیں تھا۔ یہ ایمان، انسانیت اور امت مسلمہ کے ساتھ یکجہتی کا اعلیٰ ترین نمونہ تھا۔ پاکستانی فوجیوں نے ثابت کیا کہ حقیقی ہیرو وہ ہوتے ہیں جو مظلوم کی مدد کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
بوسنیا کے صدر علی عزت بیگووچ نے درست کہا تھا: "پاکستان نے نہ صرف ہماری جانیں بچائیں، بلکہ ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔"
آج بوسنیا میں پاکستانی پرچم احترام کی علامت ہے۔ پاکستانی شہریوں کا وہاں خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ محبت ہے جو قربانیوں سے خریدی گئی، جو ہمیشہ قائم رہے گی۔
پاکستان اور بوسنیا کی یہ داستان محبت اور قربانی ہمارے لیے مشعل راہ ہے کہ انسانیت کی خدمت ہی حقیقی کامیابی ہے۔
پاکستان زندہ باد! بوسنیا زندہ باد!
---
بوسنیا جنگ 1992, پاکستان فوج بوسنیا, بوسنیا میں پاکستانی شہدا, سربرینیکا قتل عام, یو این پیس کیپرز, بوسنیا مسلمان نسل کشی, پاکستان بوسنیا تعلقات, پاکستان انسانی امداد, بین الاقوامی انسانی قانون, بوسنیا جنگ حقائق, پاکستان فوجی تاریخ, مسلمان مظلوم, اقوام متحدہ ناکامی, بوسنیا جنگ متاثرین, پاکستان بیرون ملک امدادی کارروائیاں
مزید پڑھنے کے لیے بوسنیا کی جنگ پر دستاویزی فلمیں, پاکستان فوج کے بوسنیا مشنز, علی عزت بیگووچ کی آپ بیتی, سربرینیکا پر تحقیقی رپورٹس



