Visit Our Official Web ڈاکٹر عبداللہ عزام شہیدؒ Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

ڈاکٹر عبداللہ عزام شہیدؒ


بسم اللہ الرحمن الرحیم

ڈاکٹر عبداللہ عزام کی زندگی اسلام کے معاصر تاریخ میں ایک تابناک باب ہے۔ آئیے، ان کی پیدائش سے لے کر شہادت تک کے سفر کو مختصراً دیکھتے ہیں  

ابتداء ، فلسطین کی سرزمین (1941-1966)

پیدائش و پرورش 

عبداللہ عزام 1941 کو فلسطین کے گاؤں "سیل الحارثیہ" (ضلع جنین) میں ایک دیندار کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام یوسف تھا۔ بچپن ہی سے وہ ذہین اور سنجیدہ طبعیت کے مالک تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول میں حاصل کی۔

تعلیمی سفر

مکتب کی تعلیم کے بعد انہوں نے "خضوری" کالج (طولکرم) میں داخلہ لیا، جو زرعی کالج تھا۔ یہاں وہ اسلامی تحریک "اخوان المسلمون" کے افکار سے متعارف ہوئے۔ 1963 میں انہوں نے شریعت کی اعلیٰ تعلیم کے لیے دمشق یونیورسٹی (شام) کے فیکلٹی آف شریعت میں داخلہ لیا۔ 1966 میں انہوںے "فقه و اصول فقه" میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔

نشاۃ ثانیہ ،جہاد کی طرف پہلا قدم (1967-1979)

نکبت اور ہجرت

1967 کی جنگ ("جنگ سیت دن") میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطین کی باقی ماندہ زمینوں (بیت المقدس، غرب اردن) پر قبضے نے عبداللہ عزام کے دل پر گہرا زخم لگایا۔ انہیں اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑی اور وہ اردن چلے گئے۔

اردن میں قیام و تدریس

اردن میں انہوں نے مدرسہ میں بطور استاد کام کیا۔ اسی دور میں وہ فلسطینی مزاحمتی تحریک "فتح" میں شامل ہوئے اور فلسطین کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد میں حصہ لیا۔ تاہم، بعد میں انہوںے محسوس کیا کہ یہ تحریکیں اسلامی تشخص سے ہٹ رہی ہیں، چنانچہ انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی۔

اعلیٰ تعلیم کی طرف

1971 میں انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے مصر کی مشہور جامعہ "الازہر" کا رخ کیا۔ 1973 میں انہوں نے "اصول فقه" میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا تحقیقی موضوع تھا: "الفقه الاسلامي وادلته"۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اردن واپس آئے اور الجامعہ الاردنیہ (اردن یونیورسٹی) میں بطور استاد مقرر ہوئے۔

پی ایچ ڈی اور افغانستان سے پہلا تعارف

1979 میں انہوں نے دوبارہ الازہر یونیورسٹی سے "اصول فقه" میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا مقالہ تھا: "القواعد الفقهیہ و تطبیقها فی المذہب الشافعی"۔ یہ وہ وقت تھا جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ ڈاکٹر عزام کے دل میں جہاد کی جو چنگاری ہمیشہ سے تھی، وہ شعلہ بننے لگی۔

عظیم تبدیلی افغان جہاد کے سپہ سالار (1980-1989)

فیصلہ کن موڑ

1980 میں، جب وہ اردن یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے، انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑی اور اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ ان کی زندگی کا سب سے اہم موڑ تھا۔ وہ پاکستان پہنچے اور پشاور کو اپنا مرکز بنایا۔

"مائدۃ" کا قیام

انہوں نے "مائدۃ السمیٰد للخدمات الاجتماعیہ" (بعد میں "مائدۃ للاعلام الاسلامی") نامی ادارہ قائم کیا، جو مجاہدین کو مالی امداد، طبی سہولیات اور میڈیا کوریج فراہم کرتا تھا۔ یہ ادارہ جہاد کے لیے عرب دنیا سے آنے والے رضاکاروں کے لیے ایک اہم "بیس کیمپ" ثابت ہوا۔

عرب مجاہدین کی رہنمائی

ڈاکٹر عزام نے پوری اسلامی دنیا سے نوجوانوں کو افغان جہاد میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ ان کی پرجوش تقریریں، مضامین اور خطبات ہزاروں نوجوانوں کے دل میں جہاد کا جذبہ بھر دیتے تھے۔ وہ خود محاذ پر جاتے، مجاہدین کی ہمت بندھاتے اور عملی طور پر جہاد میں حصہ لیتے۔

بیعت اور تنظیم
انہوں نے افغان مجاہدین گروپوں، خاص طور پر "جمعیت الاتحاد الاسلامی" کے ساتھ مل کر کام کیا۔ انہوں نے "بیت الانصار" (مدینۃ المنورہ) اور "بیت الانصار" (کوہستان) جیسے مراکز قائم کیے، جہاں عرب مجاہدین کو تربیت دی جاتی تھی۔

علمی کام
انہوں نے جہاد کے موضوع پر درجنوں کتابیں اور رسالے لکھے، جن میں "الدفاع عن ارض المسلمین" اور "آیات الرحمن فی جہاد الافغان" مشہور ہیں۔ ان کی تصنیف "حلقات النور" آج بھی جہادی لٹریچر کا حصہ ہے۔

اختلاف اور آخری ایام (1989)

اختلافات
1989 میں سوویت یونین کی واپسی کے بعد افغان مجاہدین گروپوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونے لگے۔ ڈاکٹر عزام کا موقف تھا کہ افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہونی چاہیے۔ ان کے افکار اور کام سے بعض حلقے خائف تھے۔

شہادت
24 نومبر 1989 کو، جمعہ کے دن، جب ڈاکٹر عزام اپنے دو بیٹوں (ابراہیم اور محمد) کے ساتھ پشاور میں جامع مسجد "صادق آباد" میں نماز جمعہ ادا کرنے جا رہے تھے، راستے میں ان کی گاڑی میں بم دھماکا ہوا۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام، ان کے دونوں بیٹے اور ان کا ساتھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

شہادت کے بعد
ان کی شہادت نے پورے اسلامی دنیا میں صفہرا ڈال دی۔ انہیں پشاور کے "حیات آباد" قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ آج بھی ان کی قبر زائرین کے لیے مرجع بنی ہوئی ہے۔

وراثت اور افکار

ڈاکٹر عبداللہ عزام کو "عرب افغان" کے بانی اور "جہادی اسلام" کے مفکر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کا مشہور قول ہے "جہاد اور بندوق کے سائے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔"

انہوں نے اپنی زندگی میں جو بیج بویا تھا، وہ بعد میں مختلف جہادی تنظیموں کی شکل میں پھلا پھولا۔ ان کے شاگردوں میں سے ایک اسامہ بن لادن بھی تھا، جس نے بعد میں القاعدہ کی بنیاد رکھی۔

ڈاکٹر عبداللہ عزام کی زندگی کا سفر ایک عام فلسطینی گاؤں کے لڑکے سے شروع ہو کر افغان جہاد کے ایک عظیم رہنما تک پہنچا۔ وہ ایک استاد، ایک مجاہد، ایک مفکر، ایک خطیب، اور ایک منتظم تھے۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو اسلام کے لیے ان کی غیر معمولی لگن اور commitment کا آئینہ دار ہے۔ آج بھی دنیا بھر کے جہادی تحریکوں پر ان کے افکار کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url