Visit Our Official Web دو قومی نظریے کااحیاء و اہمیت اور آرمی چیف کی تقاریر Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

دو قومی نظریے کااحیاء و اہمیت اور آرمی چیف کی تقاریر

 

میجر (ر) ساجد مسعود صادق

قائد اعظم کے  بعد جس طرح دو قومی  نظریے اور ریاست پاکستان کے قیام کا  مقصد کُھلے لفظوں میں جنرل سیؔد عاصم مُنیر  بیان کررہے ہیں یہ ناصرف بھارتی قیادت  بلکہ   کئی اسلام دُشمن قوتوں اور ممالک کو جھنجوڑنے اور خوفزدہ کرنے  کے لیئے بھی کافی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ  آرمی چیف ناصرف اس نظریے کو دوبارہ زندہ کررہے ہیں بلکہ پاکستان کے  قیام کو کلمہ طیبہ کی بنیادوں پر "مملکت خُداداد" کے طور پر بیان کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی قیام کے وقت  مُسلمان  آباد ی 87.5 فی صد تھی گویا  دوقومی نظریہ  پاکستان میں بسنے والوں میں اتحاد  ومحبت اور باہمی ہم آہنگی کے لیئے ایک مضبوط ترین "Binding Force"  یا ایسا گلیو ہے جس کی وجہ سے مُسلمان  ہونے کے ناطے  تمام  پاکستانی ناصرف ایک مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں بلکہ   کوئی  بھی  پاکستانی  نہ تو  اس سے انکار کرسکتا ہے اور نہ ہی اس نظریے اور  قیام  پاکستان کے مقصد  کی مخالفت کرسکتا ہے۔  واضح رہے کہ  سیکولر جمہوریت اور جدید ریاستی نظام کا علمبردار  "ویسٹرن  ورلڈ آرڈر "  مذہب کے نام پر  کسی ریاست کے قیام کی  نہ تو اجازت   دیتا ہے  اور نہ ہی اُسے برداشت کرتا ہے بلکہ مغربی اقوام تمام دیگر مذاہب کو  ناصرف مٹانے کے پراجیکٹ میں امریکی جھنڈے تلے جمع اور  عیسائیت  کی بالادستی پر  یقین رکھتی ہیں۔

ٹونی اسمتھ اپنی  کتاب A Pact With The Devil: Washington’s Bid For World Supremacyکےصفحات 6-16 پر لکھتا ہے کہ 10  مئی سن 2006ء میں امریکی انڈر سیکرٹری Karen Hughes نے امریکی کونسل آن فارن ریلشنز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  دُنیا بھر میں لاگو کرنے کے لیئے امریکی پلان کے تین مقاصد  میں "تمام دُنیا میں برابری، آزادی، انصاف کی فراہمی؛   اسلامی انتہاء پسند مُسلمانوں جن کے مذہب کی بُنیاد ظلم اور نفرت پر مبنی ہے کواقوام عالم  سے الگ کرنا؛ اور بین الاقوامی سطح پر مُشترکہ اخلاقی اقدار، مُفادات اور مغربی ثقافت کا فروغ"  شامل ہیں۔ کرس ہائیوسس اپنی کتاب American Fascists: The Christian Right and the War on America کے صفحات 8-12 پر لکھتا ہے کہ مغربی تہذیب کا تعلق بائبل سے ہے جو اس تہذیب کے لیئے ایک اخلاقی رہنما کتابچہ ہے، امریکی ہونے کا مطلب بائبل پر یقین رکھنے والا ہونا ہے، امریکی خدائی ایجنڈے کے محافظ ہیں اور اُن کے تمام مخالف مذاہب کے لوگ شیطان کے ایجنٹ ہیں۔" بھارتی مصنف فیصل دیوجی اپنی کتاب Muslim Zion: Pakistan as a Political Idea کے صفحات 22-23پر لکھتا ہے کہ "پاکستان بھی اسرائیل جیسی ہی مذہب کے نام پر بننے والی ریاست ہے اور پاکستان پورے کشمیر، بھارتی پنجاب، گجرات اور آندھرا پردیش پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔" 

پہلے 18اپریل کو اوورسیز پاکستانیوں اور پھر 26 تاریخ کو151ویں  پی ایم اے لانگ کورس کی پاسنگ آوٹ پریڈ کے موقعہ پر جس طرح  آرمی چیف جنرل سیؔد عاصم مُنیر نے قومی نظریہ اور اُس کی اہمیت اور تاریخ پاکستان کو  اپنی تقاریر کا موضوع بنایا ہے اس سے اُن کے ناصرف "دوقومی نظریے" پر غیر مُتزلزل یقین کا اظہار ہوتا ہے بلکہ اس بات کا پتا بھی چلتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ دو قومی نظریہ کل جیسے پاکستان کی تخلیق کی بُنیاد بنا  آج   اگر اس نظریے کو پاکستانی قوم حقیقی معنوں میں سمجھے   تو یہ پاکستانیوں میں مضبوط رشتے اور  اتحاد  کے علاوہ پاکستان کے  دفاع کا ضامن بھی ہوسکتا ہے۔ اس نظریہ سے  مُتشدد اور انتہاء پسند ہندو قیادت کو اتنی چڑ اور نفرت ہے کہ سن 1971ء کی جنگ کے بعد جب بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا تو بھارتی وزیراعظم "اندرا گاندھی" نے بڑے فخر سے کہا  "ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبودیا ہے۔" گویا اس نظریے کو شکست دینا تقسیم ہندوستان سے لیکر آجتک ہندو قیادت کا ایک خواب ہے جس کی خاطر وہ پاکستان کے ساتھ چار بھرپور جنگیں لڑنے کے علاوہ ہر وقت ایک غیر  اعلانیہ حالتِ جنگ میں رہتے ہیں تاکہ کسی طرح سے اس نظریے کو شکست دی جاسکے۔  

امریکی Dominionists  ہوں یا پھر Neo Conservatives اور  Christian Zionist اسی طرح بھارتی آر ایس ایس ہویا شیو سینا یا پھر یہودی جنونی یہ سب مذہب کو اپنی عوام کو مُتحد کرنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں لیکن اُن اور  پاکستان کے مُسلمانوں اور قیادت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستانی  قوم دیگر اقوام پر قرآن کریم کے عین مطابق "لا اکراہ دین" یعنی دین میں زبردستی نہیں"  کے  اصول پر کاربند رہتے ہوئے اپنے مذہبی افکار کو زبردستی لاگو نہیں کرنا چاہتے جس کی بہترین دلیل اور اوضح ثبوت  پاکستان میں بسنے والے  دیگر مذاہب پر چلنے والے لوگوں کا پاکستان میں اطمینان اور حکومتی حفاظت میں پُرسکون زندگی بسر کرنا ہے۔ جنرل عاصم مُنیر اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ وطن کیسے حاصل کیا گیا ہے،  اس کی خاطر موجودہ پاکستانی  نسل کے آباؤاجداد نے کتنی قربانیاں دی ہیں جو کہ آج بھی جاری ہیں۔ اسی لیئے جنرل عاصم کا یہ کہنا کہ "ہمارے آباؤاجداد نے جو وطن قربانیاں دیکر بنایا ہم اُس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں" کی وجہ سے بھارتی افواج کے ہی ریٹائرڈ جرنیل مُودی کو پاکستان سے ٹکرانے سے باز رہنے کے مشورے  دیتے  نظر آتے ہیں۔ یہ  پیشہ ور  ریٹائرڈ سینیئر بھارتی فوجی ناصرف پاکستانی ٹیکنالوجی اور جنگی تیاریوں  سے بخوبی آگاہ ہیں  بلکہ موجودہ آرمی قیادت  کی سوچ اور اپروچ سے بھی وہ  مکمل واقفیت رکھتے  ہیں۔

عصرِ حاضر میں کسی بھی قوم کی ترقی اور  معاشی مضبوطی کے لیئے  بُنیادی شرائط میں قوم کی صفوں میں اتحاد، امن، مطلوبہ قدرتی  وسائل، لائق اور قابل  انفرادی قوت، مضبوط ومربوط اور مسلسل قومی پالیسیوں  اور دُرست سمت میں  ایک تسلسل کے ساتھ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔  جنرل سیؔد عاصم ناصرف پاکستانی بری فوج کے کمانڈر ہیں بلکہ حافظ قرآن بھی ہیں اس لیئے وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان میں قیام امن کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیئے ناصرف موجودہ حکومت کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں بلکہ اس محاذ پر وہ بعض اوقات حکومتی مشینری سے بھی چند قدم آگے کھڑے نظر آتے ہیں۔ اب وقت مناسب ہے کہ ہماری اشرافیہ اور عسکری اور سیاسی قیادت کو نام نہاد سیکولر جمہوریت کے پُرفریب پرچار سے نکل کر پاکستانی قوم میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور انہیں اس مؤقف کو اپنانا  چاہیئے جس  کے لیئے ریاست پاکستان معرض وجود میں آئی۔ اسلام اور دوقومی نظریے کا ذکر اور پرچار کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ یا کمزوری کا مظاہرہ کسی بھی نہیں کرنا چاہیئے بلکہ جنرل عاصم مُنیر کا "دو قومی نظریے"  کا پرچار دیگر قیادت کے لیئے باعثِ تقلید اور مشعل راہ ہے۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url