بلوچستان میں دہشتگردی سوشل میڈیا اور بھارت کا کردار!
چھتر ویدی نے تہران میں ’’کرافٹس آف سِیلک روٹ‘‘ کے نام سے ایک درآمدی کمپنی کھڑی کر رکھی تھی؛ زیوراتِ بلوچ، ایرانی قالین، اور جعلی زعفران اُس کے کاروبار کا ظاہری چہرہ تھے۔ درحقیقت یہی دفتر پاک‑ایران سرحد پر سرگرم دہشت گرد گروہوں کا ’’سامانِ زیست‘‘ اور بی ایل اے کے چھاپہ ماروں کیلئے SAT‑Phone, NVG, M‑16 A4s جیسی فوجی لوازمات بھیجنے کا خفیہ گودام تھا۔
سنہ ۲۰۲۳ کے اواخر میں ’’ڈیجیٹل وارفیئر سیل، جنوبی بلاک، نئی دہلی‘‘ میں اشوک کو ایک غیرمعمولی ٹاسک سونپا گیا: بلوچ ڈیجیٹل اسپیس میں اینٹی پاکستان بیانیے کا سیلاب۔
پانچ سو سے زائد ’’ایکس‘‘ ، فیس بک، اور ٹیلیگرام اکاؤنٹس بنائے گئے؛ ہر اکاؤنٹ ایک الگ بلوچ نام، ایک الگ المیہ، ایک ہی مقصد: پاکستان دشمن پراپیگنڈا۔
دہلی کے ’’سیبر پارک کلکجى‘‘ میں واقع ٹرول فارم کے پچیس آپریٹرز روزانہ آٹھ ہزار پوسٹس اور پندرہ سو گرافکس اپ لوڈ کرتے۔
بہ ظاہر بلوچ لہجے میں لکھے گئے یہ پروفائل دراصل دہلی یونیورسٹی کے تاریخ کے طلبہ، چند اوورٹائم طلبہِ ملازمت، اور ریٹائرڈ آرمڈ فورسز کے سائبر شوقینوں کے ہاتھ میں تھے۔بیچ میں، اشوک نے بی وای سی (بلوچ یکجہتی کمیٹی) کے بعض ناراض ارکان تک رسائی حاصل کر لی۔ اُنہیں خفیہ ’’گیٹ وے فنڈ‘‘ سے چھوٹے چھوٹے کرپٹو والٹس موصول ہوتے جن کا تبادلہ ایرانی ’’تبادلہ بازار‘‘ کے ذریعے ہوتا۔ شرط صرف اتنی تھی: لانگ مارچ، دھرنے، یا ہیش ٹیگ ٹرینڈ میں ’’ FreeBalochistan‘‘ کے ساتھ ’’پاکستان آرمی آؤٹ‘‘ لکھا جائے۔
۲۱ فروری ۲۰۲۵، رات دو بجے۔ پاک‑ایران سرحد کے قریب بند پیک اپ ٹرک نے کچے راستے پر بریک لگائی۔ سرحدی پوسٹ چاہ بہار‑پنجگور لنک ٹریل پر پاکستانی کاؤنٹر انٹیلیجنس یونٹ نے خفیہ اطلاع پر Thermals آن کر رکھی تھیں۔ ٹرک سے اُترنے والے تین افراد میں جو قد کاٹھ میں درمیانہ، ہلکی سیاہ عینک، اور زیتون رنگ جیکٹ پہنے تھا، اسے طے شدہ اشارہ ’’Red‑Nine‘‘ ملتے ہی چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔
دست گیر خان، جنھیں مقامی لیڈ بروکر سمجھا جاتا تھا، نے پکڑے جانے کے بعد جملہ کہا:
’’صاحب! یہ سَر، ٹرانسلیٹر ہے…‘‘
لیکن Retina‑ID Scanner نے لمحوں میں جھوٹ کو بھگو کر رکھ دیا—فوٹو میچنگ میں اُبھرا نام: Ashok Chaturvedi s/o Mohan Lal Chaturvedi, DoB: 11‑07‑1974۔ بین الاقوامی وارنٹ تو نہ تھا، مگر انٹرپول کی ’’Ops‑Grey List‘‘ میں اس آئی ڈی کے تانے بانے متعدد سیبر حملوں سے جُڑے تھے۔
ابتدائی تفتیش کا خلاصہ یہ تھا:
ڈیجیٹل سیل کی نوعیت : 532 جعلی اکاؤنٹس، جن میں 118 بلوچی، 263 انگلش، باقی فارسی/عربی میں تھے۔ روزانہ اوسطًا 9 ملین امپریشنز۔
لاجسٹک روٹ : بندر عباس سے چاہ بہار اور پھر پنجگور/سبی کے پہاڑی راستے۔ اسلحہ ایرانی منشیات کارٹلز کے ذریعے سفر کرتا۔
مالی معاونت : یو اے ای کی شیل کمپنی ’’Z‑Horizon FZE‘‘ → ایرانی کریپٹو OTC ڈیسک → مقامی حوالہ آپریٹرز۔
بی وائی سی روابط : دو مڈ لیول آرگنائزر: ’’DJ‑Nazar‘‘ اور ’’Dr‑Madiha Baloch‘‘۔ دونوں اب تحویل میں۔
اشوک نے Begin‑High‑Control انٹروگیشن کے ۷۲ گھنٹوں میں جزوی اعتراف کیا کہ اُس نے BLA کو کم از کم سات بار خودکش ویسٹس، بیس تھرڈ جنریشن نائٹ ویژن، اور ایک پورٹیبل ڈرون جَمَر فراہم کیا۔چتر ویدی کی ڈیپ‑ڈایو Forensic Images (۱۰؍ٹی بی) سے ایسے ’’ڈیڈ ڈراپس‘‘ دریافت ہوئے جن کے IP‑Logs اسلام آباد اور کراچی کے حساس مراکز تک پہنچے، جس سے واضح ہوا کہ بھارتی نیٹ ورک صرف بلوچستان ہی نہیں، پاکستان کے شہری مراکز میں بھی ’’بوٹس اینڈ پروکسیز‘‘ چھوڑ چکا ہے۔
کراچی میں ایک سوشل میڈیا ایجنسی کے دو ملازمین زیرحراست؛ اُن کی نوکری ’’برانڈ مینجمنٹ‘‘ تھی مگر وہ BLA کے لیے انفلوینسرز ہائر کرتے تھے۔
دہلی میں واقع ’’سیبر پارک‘‘ پر خفیہ چھاپے کے بعد وہاں کے ڈیٹا سینٹر نے اچانک ’’سرور مینٹیننس‘‘ کا بورڈ لٹکا دیا؛ ذرائع بتاتے ہیں کہ بھارتی سائبر یونٹ نے اپنے ہی سرورز ’’بلو پرنٹ ڈمپ‘‘ کئے تاکہ شواہد مٹائیں۔
تہران میں ایک کاروباری انجمن کے ذریعے دو سابق سفارت کار خاموشی سے بلائے گئے،ایرانی تفتیشی ادارے بھی اُن تک پہنچ چکے ہیں۔
پاکستانی حکام نے اشوک کی گرفتاری اب تک ظاہر نہیں کی؛ بظاہر دنیا کے لیے وہ ایک گم نام اسمگلر ہے۔ لیکن اندرونِ خانہ معاملات بھڑک رہے ہیں—اسی گرفتاری کے بعد سے بی ایل اے کے متعدد کمانڈر یکے بعد دیگرے بھاری ہتھیاروں کے بغیر پکڑے گئے؛ سوشل میڈیا پر ’’فیک لنگ‘‘ کرنے والے کئی ہینڈلز خاموش ہوگئے۔
جب چتر ویدی سے آخری بار پوچھا گیا کہ اُس نے یہ مہم کیوں چھیڑی تو اُس نے رک رک کر صرف اتنا کہا:
’’Narratives win wars; bullets only finish them.‘‘
مگر اب وہی Narrative اُس کے گرد قید ہے۔ سرحد کے اُس پار جہاں بلوچستان کی ٹوٹی سڑکیں نئی روشنیوں کی منتظر ہیں، اب یہ کہانی کانوں کان پھیل رہی ہے کہ ایک بڑا ’’شکار‘‘ محفوظ ہاتھوں میں ہے، اور اُس کے ’’پانچ سو سایے‘‘ ایک ایک کر کے بجھائے جا رہے ہیں۔
☆★☆★☆★☆★☆
- جعلی بلوچ ہینڈلز
- سوشل میڈیا ایجنٹس
- سائبر لیب
- ڈیٹا ڈاٹ
- کلدیپ ویشنو
- بلوچستان فیکٹس
- جی پی ٹی ڈرائیون ریپلائی بوٹ
- سیبر پارک
- ڈیجیٹل فرانزک
- آپریشن سردار فائلز
- ڈیپ فیک ڈیجیٹل لرننگ ورکشاپس
- سائبر شور
- راولپنڈیک
- راچی گرفتاری
- کوئٹہ گرفتاری
- پنجگور گرفتاری
- تربت گرفتاری
- گوادر گرفتاری
- ٹویٹ شیڈیولر
- ہائیبرڈ دھرنا
- لائیو سپیس
- کوڈ بلیک سپیرو
- ہیومن انٹیلیجنس
- سگنل انٹیلیجنس
- وی ایم ویئر انسٹینس
- فری بلوچستان
- اے آئی ڈرائیون پیٹرن کلیش
- کرپٹو سرکٹس
- ریکروٹرز
- ڈیجیٹل خیمے
- Fake Baloch Handles
- Social Media Agents
- Cyber Lab
- Data-Dot
- Kuldeep Vaishnav
- Balochistan Facts
- GPT-Driven Reply Bot
- Cyber Park
- Digital Forensics
- Operation Sardar Files
- Deep Fake Digital Learning Workshops
- Cyber Noise
- Rawalpindi
- Karachi Arrest
- Quetta Arrest
- Panjgur Arrest
- Turbat Arrest
- Gwadar Arrest
- Tweet Scheduler
- Hybrid Dharna
- Live Space
- Code Black Sparrow
- HUMINT (Human Intelligence)
- SIGINT (Signals Intelligence)V
- Mware Instance
- FreeBalochistan
- AI-Driven Pattern Clash
- Crypto Circuits
- Recruiters
- Digital Tent
- جعلی اکاؤنٹس
- سائبر کرائم
- سوشل میڈیا جنگ
- بلوچستان
- پاکستان
- بھارتڈ
- یجیٹل سیکیورٹی
- انٹیلیجنس
- گرفتاریاں
- ٹیکنالوجی
- Fake Accounts
- Cybercrime
- Social Media Warfare
- Balochistan
- Pakistan
- India
- Digital Security
- Intelligence
- Arrests
- Technology