شہنشاہ اورنگ زیب بمقابلہ فلمی چھاوا
گذشتہ دنوں انڈیا میں چھاوا نامی ایک فلم ریلیز ہوئی جس کے بعد بھارت کے مختلف شہرو ں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے صوبہ مہاراشٹر کے شہر ناگ پور میں کرفیو کا نفاذ کرنا پڑا اس فلم کی کہانی ایک مراٹھی ناول نگار شیواجی ساونت کے ناول سے ماخوذ ہے جس کے ہدایت کار لکشمن تیکر ہیں یہ فلم مرہٹہ ایمپائر کے دوسرے حکمران سانبھا جی مہاراج کی زندگی پر فلمائی گئی ہے ان کے پتا شیواجی مہاراج نے مغربی ہندوستان میں اپنی جاگیر کو توسیع دے کر بہت سے جنگی قلعے تعمیر کر لئے اور مرہٹہ ایمپائر کی بنیاد رکھ دی شیوا جی نے مغلوں سے مذہبی اور ثقافتی عصبیت کو بنیاد بنا کر انتہا پسند ہندو جنگجووں کی فوج تیار کر لی تھی درجنوں مرتبہ عظیم مغل سلطنت کی رٹ کو چیلنج کیا مغل فوج کے جری جرنیل افضل خان کو شہید کیا اورنگ زیب کے ماموں شائستہ خان کو شکست کا مزہ چکھایا بہت سے مغل علاقوں کو بزور قوت اپنی ایمپائر میں شامل کر لیا مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے شہنشاہ اورنگ زیب نے مرہٹوں کے سردار سانبھا جی مہاراج کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا 1689 میں مغل فوج کے آپریشنل کمانڈر راجہ جے سنگھ نے تابڑ توڑ حملے کر کے سانبھا جی مہاراج کی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیا اسے گرفتار کرنے کے بعد قلعے میں منتقل کر دیا گیا جہاں فلم کے مطابق شہنشاہ اورنگ زیب کے حکم پر سانبھا جی مہاراج کو قتل کرنے سے پہلے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے زبردستی اسلام قبول کرنے پر اصرار کیا جاتا ہے انکار پر اس کے ناخن کھینچے جاتے ہیں زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے یہ مناظر دیکھ کر خواتین فلم بین سنیما حال میں چیخ و پکار شروع کر دیتی ہیں فلم میں سانھبا جی مہاراج کا کردار وکی کوشل نے ادا کیا ہے شو کے خاتمے کے بعد ہندو فلم بینوں نے مشتعل ہو کر سڑکوں پر توڑ پھوڑ شروع کر دی شہر میں مسلمانوں کی املاک کو شدید نقصان پہنچایا اور ہندوستان کے عظیم شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے مقبرے پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی شدید نعرہ بازی کے دوران غلامی کی نشانیوں کو مسمار کرنے کا عزم ظاہر کیا بلوائی اورنگ آباد کے نزدیک مدفون بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے مقبرے کو مہاراشٹر سے باہر منتقل کرنے کا مطالبہ کرتے رہے حالانکہ ان واقعات کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے مراٹھی زبان میں *چھاوا *کا مطلب شیر ہے فلم میں سانھبا جی کو چھاوا کے روپ میں دکھایا گیا ہے جب کہ شہنشاہ کو فلم میں ظالم گھمنڈی نفرت سے بھرا ہوا شخص اور لگڑ بگڑوں کی فوج کا شاطر سربراہ دکھایا گیا ہے یوں ایک فرضی کہانی کے ذریعے ہندو مسلم نفرت کو مزید بڑھاوا دینے کی مذموم کوشش کی گئی ہے ہندوستان میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے انتہا پسند کارکنان بھارت میں مسلمانوں کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کرنے وہ ہمیشہ اسرائیلیوں کی طرح تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد مسلمانوں کے لئے بھارت کی زمین کو گرم کرتے رہتے ہیں بد قسمتی سے بھارت میں عظیم مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کو ہندووں کے ساتھ نفرت کا سب سے بڑا سمبل بنا کر پیش کیا جاتا ہے ان کے طرز حکمرانی پر بہت سے بے سرو پا الزامات لگائے جاتے ہیں ایک الزام یہ بھی لگایا جا تا ہے کہ وہ ہندو دھرم کے مخالف تھے انہوں نے اپنے عہد حکومت میں بے شمار مندروں کو مسمار کروایا اپنے مخالفین کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا موسیقی پر پابندی عائد کی نشے کے کاروبار اور افیون کے استمعال کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے غیر مسلم شہریوں پر جزیہ لاگو کیا سکھ لیڈر تیغ بہادر کا سر تن سے جدا کروایا جب کہ اسلام قبول کرنے والوں کو جاگیروں اور مراعات سے نواز ۔۔۔ یوں تاریخ کو مسخ کر کے انڈیا میں نئے سرے سے تاریخ لکھی جا رہی ہے تین سو بیس سال گزرنے کے باوجود ہندووں نے اپنے ایک نیک سیرت عوام دوست اور انصاف پسند بادشاہ کو نفرت کے نشانے پر رکھا ہوا ہے بادشاہ کے حالات زندگی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں
اورنگ زیب عالمگیر 3 نو مبر 1618 کو مالوا گجرات میں پیدا ہوئے ان کا انتقال 3 مارچ 1707 کو 88 برس کی عمر میں ہوا ان کی والدہ ملکہ ہند ممتاز محل تھیں جس کی یاد میں شاہجہان نے آگرہ میں تاج محل تعمیر کروایا اورنگ زیب کے تین بھائی اور بھی تھے جن میں دارا شکوہ شاہ شجاع اور شہزادہ مراد شامل تھے دارا شکوہ اپنی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں اور معاملہ فہمی کی وجہ سے شاہجہان کی آنکھ کا تارا تھا اس لئے بادشاہ نے اسے ولی عہد کے عہدے پر نامزد کر رکھا تھا وہ دارلحکومت میں رہ کر حکومتی امور میں بادشاہ کی معاونت سر انجام دیتا تھا جبکہ اورنگ زیب شہزادہ شجاع اور مراد گجرات دکن اور بنگال وغیرہ میں صوبے داری کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے بادشاہ کی علالت کی خبر عام ہونے ہی چاروں شہزادوں کے دل میں ہندوستان کا بادشاہ بننے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی شاید بادشاہ نہ بننے کی صورت میں انہیں مارے جانے کا ڈر بھی ہوتا تھا چاروں بھائیوں کے درمیان تخت کے حصول کے لئے رسہ کشی شروع ہوگئی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور شاہجہان کی مخالفت کے باوجود اورنگ زیب عالمگیر کو اس معرکے میں فتح نصیب ہوئی شجاع اور مراد جنگ میں مارے گئے اس نے بادشاہ کو معزول کر کے قلعے میں نظر بند کر دیا دارا شکوہ کو گرفتار کر لیا گیا چیتھڑوں کے لباس میں ہاتھی پر بٹھا کر دلی کی سڑکوں پر گھمایا گیا بعد ازاں اس کا سر قلم کر کے معزول شہنشاہ شاہجہان کو تحفے میں پیش کیا پاور گیم کے رولز اور قوانین بھی انوکھے ہوتے ہیں اس کھیل میں کوئی کسی کا بھائی باپ یا بیٹا نہیں ہوتا صرف ایک زندہ رہتا ہے باقی مارے جاتے ہیں اگر دارا شکوہ کی جگہ اورنگ زیب ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جاتا شہشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے 1658 سے 1707 تک یعنی نصف صدی تک ہندوستان پر بلا شرکت غیر حکمرانی کی اپنی بے پنا ہ قائدانہ صلاحیتوں فہم و فراست جنگی تربیت بہترین سیاسی اور معاشی حکمت عملی کی وجہ سے ہندوستان کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا چالیس لاکھ مربع میل رقبے پر ایک فلاحی خوشحال اور مستحکم ریاست کی بنیاد رکھ دی انہوں نے شاہجہان کے عہد میں خالی ہونے والے خزانے کو دوبارا بھر دیا ان کے دور میں دنیا کی کل جی ڈی پی کا تیسرا حصہ ہندوستان سے تعلق رکھتا تھا بیرونی دنیا ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہتی تھی آٹھ لاکھ سے زیادہ تربیت یافتہ فوج ہر وقت تیار رہتی تھی بادشاہ نے ریاست کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کا قلع قمع کر دیا وہ ہندو رعایا سے بھی اتنا ہی پیار کرتے تھے جتنا مسلمانوں یا کسی اور سے کرتے تھے تاریخی ریکارڈ کے مطابق شاہی دربار اور فیلڈ میں مختلف عہدوں پر فائز پچاس فیصد افسران اور اہلکار ان کا تعلق ہندو دھرم سے تھا ان کی فوج کا سپہ سالار راجہ جے سنگھ بھی ہندو دھرم سے تعلق رکھتا تھا سانھبا جی مہاراج اور شیوا جی مہاراج کے ساتھ ان کی لڑائی مذہب کی بنیاد پر نہیں تھی بلکہ یہ جنگ باغی راجہ اور بادشاہ کے بیچ تھی اس جنگ میں اورنگ زیب کا بیٹا شہزادہ مرزا محمد اکبر اور سابق سپہ سالار راجہ مان سنگھ کا پوتا دونوں شیوا جی مہاراج کے حلیف تھے چند مندروں کو گرائے جانے کی وجوہات سیاسی نوعیت کی تھیں بعض باغی گروہ وہاں بیٹھ کر حکومت کے خلاف سازشیں کرتے تھے شہنشاہ اورنگ زیب نے اپنے عہد حکومت میں بہت سے مندروں کی تعمیر اور نگہداشت کے لئے فنڈز بھی مہیا کئے تھے سکھ لیڈر مہاراج گرو گوبند سنگھ اور گرو تیغ بہادر باغی گروہوں کی پشت پناہی کرتے تھے انہوں نے گرو تیغ بہادر کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر کبھی مجبور نہیں کیا اگر شہنشاہ اورنگ زیب لوگوں کوزبردستی مسلمان بنانے کے قائل ہوتے تو سب سے پہلے وہ اپنے ہندو سپہ سالار افسران اور درباریوں کا مذہب تبدیل کرواتے انہوں نے غیر مسلم صاحب ثروت شہریوں پر جزیہ کا نفاذ کیا جب کہ مسلمانوں پر شریعت کے مطابق اڑھائی فیصد کے حساب سے زکات ادا کرنے کا حکم جاری کیا دونوں مدات میں حاصل ہونے والی رقوم کو مستحق ہندووں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا تھا منشیات اور موسیقی کی محفلوں پر سختی سے پابندی عائد کر دی گئی تھی کیونکہ دربار میں دن رات موسیقی اور عیش و عشرت کی محفلوں نے مغل شہزادوں اور درباریوں کو بڑی حد تک نکما کر دیا تھا بادشاہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اس لئے ان کے دور میں بے شمار غیر مسلم افراد نے اسلام قبول کیا انہوں نے بڑے پیمانے پر مذہب تبدیل کروا کر خطے کی ڈیمو گرافی بدلنے کی کبھی شعوری کوشش نہیں کی وہ ایسا کرتے تو آج ہندوستان میں ہندووں کی تعداد دو تین فیصد سے زیادہ نہ ہوتی شہنشاہ اورنگ زیب کی ذات کو معتوب کرنے سے پہلے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی برطانیہ فرانس ایران اور اپنے اجداد تیمور برلاس اور بابر کی طرح ایک بادشاہ تھے جو دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے کھلے دشمن تھے انہوں نے اپنے ملک کی بقا سلامتی ترقی اور خوشحالی کو دوام بخشنے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کیا ملکی امور پر موثر گرفت اور متوازن پالیسوں کے ذریعے قوم کی راہنمائی کا حق ادا کیا وطن کی فضاوں میں منڈلاتے ہوے خطرات کا بر وقت تدارک کیا آج انتہا پسند ہندوتوا اور ان کے گرو مودی کو شاید اس بات کا رنج ہے کہ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے مغل سلطنت کو ناقابل شکست بنا کر شیوا جی اور سانھبا جی مہاراج کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا تھا اپنی وفات سے قبل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے وصیت کی تھی کہ ان کی تجہیز و تکفین پر قومی خزانے سے ایک پائی بھی خرچ نہ کی جائے بلکہ ان کی ذاتی کمائی مبلغ چار روپے جو انہوں نے ٹوپیاں سی کر حاصل کی تھی سے اخراجات پورے کئے جائیں وصیت کے مطابق شہنشاہ اورنگ زیب کو خلد آباد نزد اورنگ آباد میں ان کے مرشد شیخ زین الدین کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا
انا لللہ وا انا الیہ راجعون
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گیئں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہا ں ہو گیئں