بھارتی جنگی جنون اور عالمی طاقتوں کا مُتوقع رسپانس (حصہ اول ۔ امریکہ)
میجر (ر) ساجد مسعود صادق
پہلگام واقعہ کے بعد اگرچہ ہر محاذ پر پاکستان کو بھارت پر اخلاقی برتری حاصل ہے لیکن بین الاقوامی سیاسیات کی اپنی ہی اخلاقیات ہیں جن میں مُلکی مُفاد سرفہرست رہتا ہے۔ پاکستان ارباب اختیار بالخصوص "ہندواتہ جنون" کا مقابلہ کرنے کے لیئے کچھ زمینی حقائق اور عالمی طاقتوں بالخصوص چین و امریکہ اور اسلامی دُنیا کے اہم ممالک کے رویے کو پاک بھارت کشیدگی کے مواقع پر ذہن نشین رکھنا ہوگا۔ جہاں تک امریکہ کی بات کی جائے تو جنوب ایشیائی سیاست کا ماہر امریکی مُفکر اسٹیفن کوہن اپنی کتاب Shooting The India-Pakistan Conundrum For a Century کے صفحہ 177پر لکھتا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پاک بھارت تعقات پر امریکی فارن پالیسی اور ترجیحات جسے De-hyphenation (جس میں بھارت امریکہ کے لیئے پاکستان سے اہم ہے) کا نام دیا گیا ہے یہ صدر ریگن کے دور میں شروع ہوئی، کلنٹن نے اسے پاک بھارت ایٹمی دھماکوں کے مطابق ایڈجسٹ کیا، بُش جونئیر نے اسے نام دیا اور صدر اوباما نے اس پر عمل کیا اور اوباما نے اپنے دور میں پاکستان اور بھارت کیساتھ جو رویہ رکھا اس کے مطابق پاکستان کو دُشمن اور بھارت کو "قدرتی اتحادی" کے طور پر ٹریٹ کیا گیا۔
پہلگام واقعہ کو بُنیاد بناکر مُودی سرکار میں "ہندو جُنونی وار مونگرز گروپ" نے جس طرح آسمان سر پر اٹھایا ہے وہ کسی عقلی اور شعوری لحاظ سے ناصرف حیران کُن ہے بلکہ عالمی امن کے لیئے انتہائی خطرناک ہے اور اس جنون کو اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ محض بھارتی منصوبہ سازی ہے تو ایسا سمجھنا مُودی کی پُشت پناہ مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے بارے میں شاید ایک غلط تجزیہ ہوگا کیونکہ بھارت امریکہ کا جنوبی ایشیاء میں وہ مہرہ ہے جس پر امریکہ نے دہشت گردی کی جنگ کے دوران بڑی انویسٹمنٹ کی ہے اور بھارت سے امریکہ کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے جس کی تفاصیل سے معروف مُفکروں کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ امریکی مُفکر ڈینئیل مرکی اپنی معروف کتاب No Exit from Pakistan, America's Tortured Relationship with Islamabad کے صفحہ 276 پر لکھتا ہے کہ پاکستان سے امریکی مفادات کو خطرات سے بچنے کے لیئے امریکہ معاشی، عسکری، ڈپلومیٹک پالیسیوں اور بھارت کیساتھ ملکر پاکستان کے گرد ایک مضبوط باڑ بنا دے جس سے پاکستان باہر نہ نکل سکے۔ اسی طرح وہ صفحہ 144پر لکھتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دہشت گردی پر ایک دن "آرماجدون" ہوکر رہے گا۔
ایکس سی آئی افسر بروس رڈل (جس نے پوری افغان روس جنگ میں افغانستان میں کام کیا اور صدر اوباما کا مشیر) اپنی کتاب Deadly Embrace Pakistan, America, and the Future of the Global Jihad کے صفحہ 114پر لکھتا ہے کہ "امریکہ (امریکی افواج) کو پاکستان کے خلاف یک طرفہ کاروائی کے لیئے تیار رہنا چاہیئے۔" بروس رڈل اپنی دوسری کتاب Avoiding Armageddon: America, India, and Pakistan to the Brink and Back کے صفحہ 100پر لکھتا ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں تمام تر ناکامی کی ذمہ دار پاک فوج اور آئی ایس آئی ہیں اور صفحہ 178پر وہ لکھتا ہے کہ "پاکستان بھارت اور امریکہ کے لیئے مُشترکہ پرابلم" ہے۔ ان مذکورہ کتابوں کے علاوہ ایک بڑے امریکی تھنک ٹینک کی مشہور ومعروف رپورٹ Independent Task Force Report No. 65 جس کو Strategy for Pakistan and Afghanistan” کا نام دیا گیا ہے میں امریکہ مُستقبل میں پاکستان کو کیسے ہینڈل کرے گا بڑی تفصیل سے بیا ن کیا گیا ہے۔ امریکی مُفکروں کا بس نہیں چلتا کہ وہ پاکستان کو کس طرح دُنیا کے نقشے سے مٹائیں یا پاکستان کو کس طرح چین سے دور کریں کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ماضی میں جس طرح پاکستان نے چین اور روس اتحاد میں امریکہ کے کہنے پر رخنہ ڈالا اب پاکستان ہرگز یہ نہیں کرنے والا۔
گرینڈ اسٹرٹیجی میں بین الاقوامی پارٹنرز سے جو توقعات ہوتی ہیں ان میں غلطی ہمیشہ جنگ میں ناکامی کا باعث بن جایا کرتی ہے پاکستان اس تجربے سے ایک بار نہیں دوبار 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں گُذر چُکا ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں اخلاقیات کی بجائے مُفاد ترجیح اول ہوتا ہے اور اسی مُفاد کی خاطر امریکہ پاکستان کو کئی بار دھوکہ دے چُکا ہے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ جب چین امریکہ "ٹریڈ وار" کے بعد ممکنہ فوجی ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہے ہیں ایسے میں یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہیئے کہ بھارت اور پاکستان ان دونوں ممالک کے لیئے پراکسی اسٹیٹس کا رول کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان بھارت سے جنگ نہیں کرنا چاہتا لیکن امریکی مُفادات یا بھارتی طاقت کے زعم میں مُبتلا بھارتی حکمرانوں کے جنونی گروپ کی پاکستان کو دبانے کی ازلی پالیسی کی وجہ سے بھارت سے پاکستان جو جنگ لڑنی پڑ سکتی ہے۔ اور یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ایک طرف بھارت خطے میں اپنی بدمعاشی منوانے کی ہرممکنہ کوششوں میں مصروف ہے اور اسی طرح اس بھارتی جنگی جنون سے مغربی دُنیا بالخصوص اسرائیل اور امریکہ فائد اٹھا کر اس خطے جنگ کی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔
امریکی مُفکر کبھی پاکستان کو باندھ کر مارنے، تو کبھی بھارت کیساتھ ملکر توڑنے کی بات کرتے ہیں جیسے اسٹیفن کوہن نے آج سے بیس سال پہلے پیش گوئی کی کہ پاکستان 30 سالوں بعد دُنیا کے نقشے سے مِٹ جائے گا۔ امریکی ترجیحات اور مُفادپرستی کی فارن پالیسی اور پاک امریکہ تعلقات سب پاکستانی ارباب اختیار کے سامنے ہیں۔ چین کو سن 1962ء میں دلائی لامہ کے ذریعے بھارت میں کھینچنا اور روس کو افغانستان میں کھینچنا یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح صدر ایوب، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، جنرل مُشرف، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں پاکستان کے ساتھ امریکی ڈیلنگ بھی سب پاکستانی موجودہ حکمرانوں کے سامنے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکہ کے لیئے پاکستان کوئی ڈائریکٹ خطرہ نہ ہو لیکن اُس کی پالیسیوں اور اُس کے بغل بچے "اسرائیل" اور چین کے خلاف "قدرتی اتحادی" بھارت کے لیئے یقینا پاکستان ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس لیئے پاکستان کو بھارت سے ٹکراؤ کی صورت میں امریکہ سے کسی بھی قسم کی ڈپلومیٹک۔ عسکری یا اخلاقی حمایت کو دل سے مکمل طور پر نکال پھینکنا ہوگا بلکہ امریکہ کو بھارت کا ہی اتحادی سمجھنا ہوگا۔