ڈیرہ غازیخان۔ضمنی انتخاب۔ مقابلہ سخت (آخری قسط)
(آخری قسط) کوہ سلیمان سے
احمد خان لغاری
ڈیرہ غازیخان کے حلقہ این اے 185پر ضمنی انتخاب کے حوالے سے انتہائی دلچسپ صورتحال دیکھی جارہی ہے، لغاری سرداروں نے ٹکٹ کے حصول کیلئے تمام ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان نے اپنی قربانیاں اور مسلم لیگ کیلئے جدوجہد یاددلائی چونکہ انہیں پتہ چل چکا تھا کہ مقامی ایم پی اے محمد حنیف پتافی کے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد شفیق پتافی جو ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں، اور ان کا زیادہ کاروبار ملتان میں ہے اور وہ ملتان میں " اعلی شخصیات" سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ لغاری خاندان نے بھرپور کوشش کرکے ڈاکٹر شفیق پتافی جو مقامی سیاست میں نوزائیدہ تھا اسے پوری طاقت سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ تمام سیاسی گروہ جو مسلم لیگ کے اندر موجود باہمی کشمکش کا شکار اور سب ضمنی انتخاب لڑنے کیلئے اپنے آپ کو ہی اہل سمجھتے تھے، اعلی قیادت نے انہیں بلایا اور سمجھا یا کہ حلقہ این اے 185کیلئے سردار محمود قادر خان لغاری کو نامزد کیا گیا ہے لہذا انہیں منتخب کرایا جائے۔ ڈیرہ غازیخان کے اتحادی گروپ جماعت اہلحدیث کو حلقہ این اے 185کے امیدوار سردار محمود قادر لغاری کے منتخب ہوجائے کے بعد خالی نشست پر سرکاری امیدوار اسامہ عبدالکریم کو ٹکٹ کا یقین دلا یا گیا۔اسی طرح حذیفہ رحمان پہلے ہی دستبر دار ہوچکے تھے۔اور اب وہ آخری جلسہ اپنی رہائش گاہ پرمنعقد کرکے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ دوسری طرف مسلم لیگی رہنما سید عبدالعلیم شاہ سابق ایم پی اے اور لغاری سرداروں کے درمیان صرف دوری نہیں بلکہ وہ مخالفت تک پہنچ چکے تھے اور گذشتہ عام انتخابات میں وہ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور سردار دوست محمد خان کھوسہ کے ساتھ نظر آئے، اس وقت تمام مسلم لیگی رہنما و کارکنان یکجا ہوکر اپنے امیدوار کی حمایت کررہے ہیں پتافی برادران اور سید عبدالعلیم شاہ اپنے ذاتی دوستوں اور تعلق داروں سے کہہ کر کارنر میٹنگ اور جلسے منعقد کرارہے ہیں تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ شہر میں وہی گروپ بااثر ہیں اور جیسے سردار محمود قادر لغاری کو یا لغاری سرداروں کی شہر میں کوئی جان پہچان نہیں ہے۔ سردار اویس خان لغاری نے بھی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا ہے اور شہر کے معززین سے ملاقاتیں کیں۔ مسلم لیگی گروپوں میں حذیفہ رحمان ڈیرہ غازیخان سے لاتعلق رہے ویسے بھی وہ سیاست میں نووارد ہے، وفاقی وزیر مملکت ہونے کے علاوہ ان کی کوئی پہچان نہیں ہے۔ یا پھریہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ انتخابی مہم میں اس لیے حصہ نہیں لے رہے کہ وہ نااہل نہ قرار پائیں۔
اب تک کی انتخابی مہم میں تمام مسلم لیگی گروپ مشترکہ طور پر میدان عمل میں ہیں۔ چند لوگ یہ سوال ضرور کررہے ہیں کہ کیا تمام مسلم لیگی دھڑے نیک نیتی کے ساتھ اپنے امیدوار کے ساتھ کھڑے ہیں یا باامر مجبوری ایک ساتھ نظر آرہے ہیں۔ یہ سب کچھ انتخابی دن کو اور رات کو نتائج بتائیں گے۔ دوسری طرف حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار دوست محمد خان کھوسہ جو سابق وزیر اعلی اور سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے صاجزادے ہیں۔ اگرچہ دونوں جماعتوں نے جمہوریت کی بقا کیلئے آئین میں ترامیم درترامیم کے ذریعے مبینہ طور پر 1973کے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اگر اتفاق ہے تو صدرمملکت اور سینٹ کے چیئر مین گورنر جیسے عہدوں کے حصول پر متفق ہیں، آزاد کشمیر میں بھی حکومت پی پی پی کو پلیٹ میں رکھ کر دی جارہی ہے لیکن چند ضمنی انتخابات میں اتفاق نہ ہونا عجیب لگتا ہے۔ لیکن قارئین کرام کیلئے اس کا دوسرا رخ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی ہے۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ اب عوام کو جمہوریت کو پھلتے پھولتے پیش کیا جائے اور دنیا کو بھی دکھا یا جائے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کیلئے کیا جارہا ہے۔ وگرنہ ضمنی انتخابات محض نامزدگیاں قرار پاتیں۔
ڈیرہ غازیخان کی قومی اسمبلی کی نشست پر مقابلہ محض دیکھاوا نہیں ہے، یہاں جماعتوں سے زیادہ دوقوموں، دو جاگیرداروں اور دوقبیلوں کے درمیان ہورہاہے اور وہ قبیلے جو کبھی سیا سی طور پر ایک ساتھ نہیں رہے، سوائے شادی غمی پر آنے جانے کے سیاسی طور پر ایک پرچم کے سائے تلے اکٹھے نہیں ہو سکے۔ انتخابی مہم میں ایسی شکایتیں سامنے آرہی ہیں کہ جودھڑے سرکاری امیدوار کو ووٹ نہیں دے رہے ان کی بجلیاں اور کنکشن کاٹے جارہے ہیں، بجلی کے بل زیادہ موصول ہورہے ہیں۔ مبینہ طور پر پولنگ اسٹیشن دور دراز علاقوں میں تبدیل کیے جارہے ہیں جس سے کھوسہ قوم کے ووٹران کو مشکل میں ڈالنا مقصود ہے۔ اس ساری رکاوٹوں کے باوجود سردار دوست محمد کھوسہ میدان میں ڈٹا ہوا ہے اور پورے قد کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے سردار سیف الدین کھوسہ جو سردار دوست محمد خان کھوسہ کے بڑے بھائی ہیں۔وہ اپنے بھائی کی انتخابی مہم میں ان کے ساتھ ہیں، بائیکاٹ کے باوجود چند پی ٹی آئی کے نوجوان بھی حالیہ صورتحال میں اپنا وزن سردار دوست محمد کھوسہ کے پلڑے میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ لغاری گروپ کو اقتدار میں تمام سہولتیں میسر ہیں، پولیس، سرکاری محکموں، اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے اسپر لغاری گروپ مطمئن نظر آ تا ہے لیکن ایک خوف ہے انجانا خوف جو انہیں ڈراتا ہے کیونکہ اوپر سے دونوں طریقت کے ایک ہی سلسلہ سے بیعت کئے ہوئے ہیں جو بھی جیتا وہ انہیں کا ہی ہوگا۔ مبینہ طور پر اس وقت بجلی کی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی، ٹریفک چالان بھی بند کردیے گئے ہیں، پیرا فورس کی کاروائیاں عارضی طور پر بند ہیں تاکہ لوگوں کو احساس دلایا جاسکے کہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا، 23نومبر کے بعد دیکھا جائے گا۔ سردار دوست محمد خان کھوسہ اپنے برادری، قبائل کے علاوہ تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ یہاں فارم 47نہیں چلنے دیں گے اگر لوگوں نے اسے فارم 45تک پہنچا دیا تو کوئی دوسرا یہ فارم حاصل نہ کر سکے گا اور اس کا م کیلئے پورا پہرہ دیاجائیگا۔ قارئین دونوں امیدوار یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ کامیابی انکے قدم چومے گی اور کسی کو جعلی طور پر کامیابی سے دوررکھا جائیگا۔ اگرچہ ووٹنگ کی شرح کم ہوگی جسکافائدہ لغاری سرداروں کو ہوگا، کیا کینسر ہسپتال، غازی گھاٹ کاپل اور عوامی مسائل کا حل کرسکیں گے؟ لغاری سرداروں کی کامیابی ہوگی یا کوئی معجزہ رونما ہوگا۔
