Visit Our Official Web ڈیرہ غازیخان ضمنی انتخاب، مقابلہ سخت Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

ڈیرہ غازیخان ضمنی انتخاب، مقابلہ سخت


"پہلی قسط"             کوہ سلمان سے 

احمد خان لغاری

ڈیرہ غازیخان کے حلقہ قومی اسمبلی 185کی نشت پی ٹی آئی کی محترمہ زرتاج گل کو نا اہل قراردیے جانے کے بعد خالی قرار پائی ، محترمہ دومرتبہ قومی اسمبلی کی رکن رہیں اسے پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے بلکہ عوامی پذیرائی حاصل رہی اور آج بھی بطور جماعت مقبولیت میں کمی نہیں آئی یہ اور بات ہے کہ ہماری قومی سیاست مقبولیت سے زیادہ قبولیت کے دائرے میں گھومتی ہے، کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ۔ یہی ہمار جمہوری مزاج ہے جو بے بسی اور بے کسی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہمیشہ سے بلبلا رہا ہے ۔ ہمارے سیاستدانوں نے بھی ہمارے جمہوری نظا م کو گھر کی لونڈی بناکے رکھنے کے عادی ہیں اور ہماری جمہوریت بیچاری آٹھ دھائیوں سے "کہیں پھنسی" ہوئی ہے۔ کوشش بسیار کے باوجود سیاستدان بھی بعض اوقات بے بس ہوتے ہیں اور پتلی تماشہ کھیل میں کسی کے اشاروں پر ناچ  رہے ہوتے ہیں بلکہ کچھ سیاستدان توناچ چاچ کے گھنگھروتوڑ دیتے ہیں تاکہ تماشہ کرنے والے اور دیکھنے والے نوٹ نچھاور کرتے رہیں۔ بات تمہید کی تھی لیکن تمہید طولانی ہورہی ہے ، اور ہماری قلم بھی کانپنا شروع کردیتی ہے، بزدل کہیں کی !

حلقہ این اے 185 کی سرکاری ٹکٹ کے امیدواروں کی ایک طویل فہرست تھی۔ اس فہرست سے ایک وزیر باتدبیر سب سے پہلے میدان چھوڑ گئے تھے کیونکہ انہیں خبر ہوگئی تھی کہ یہاں پر سردار تمندار اور سرمایہ دار کے درمیان جنگ ہے اور وہ نو آموز اور سیاسی قدنہ ہونے کی وجہ سے ذہنی طور پر ہار مان گیا اس کی ڈیرہ غازیخان کے سیاسی و غیر سیاسی معاملات میں گہری دلچسپی سے سرداروں سرمایہ داروں کے اثر رسوخ کی وجہ سے پارٹی رہنمائوں یعنی اعلی قیادت بھی خاموش تھی تو اس نے بھی اسی میں بھلا جانا اور اس کو سرائیکی کہاوت سمجھ میں آئی ہوگی۔ "لڑن سان پٹیجن بوٹے"۔ اس نشت کےلیے ہر سیاستدان پر امید ہی نہیں پر عزم اور پر یقین تھا۔ سینیٹر حافظ عبدالکریم کے صاجزادے اُسامہ عبدالکریم کے بارے ان کے خیر خواہ تو یہ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ اور شیر کا نشان اسامہ عبدالکریم کے حصہ میں ہی آئے گا۔ اس پرہنسی بھی نکلتی تھی لیکن لوگوں کی ہنسی پر بھی اسامہ عبدالکریم کے خیر خواہوں کو اعتراض تھا۔ شہر کے ایم پی اے حنیف پتافی کے بھائی اور سرمایہ دار ڈاکٹر شفیق پتافی تو اپنے" تعلقات "کی بنا پر ڈیرہ، ملتان اور پنڈی تک کے دیرینہ مراسم پر یقین کامل رکھتے تھے اور مبینہ طور پر ان کی سب محا ذوں پر بات "مکمل چکی" ہے کہ مبینہ طور پر فارم سنتالیس کےوہی  اصل حقدار ہیں۔ یہ بات پورے شہر میں پھیل چکی تھی۔ دوسری طرف لغاری سرداران نے بھی حلقہ این اے 185 کو اپنا آبائی حلقہ اور اپنا حق فائق سمجھتے ہوئے اور حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے یکسو ہوئے اور تمام ممبران اسمبلی اسلام آباد کے لیے رخت سفر باندھا اور اب مسلم لیگ کےلئے انکارکی گنجائش نہ رہی اور سارے سرخرو لوٹے  تو باقاعدگی سے انتخابی مہم کا آغاز کردیاگیا۔ شہر میں پہلا بڑا سیاسی اجتماع جماعت اہلحدیث کے سربراہ سینیٹر حافظ عبدالکریم کی طرف سےمشروط حمایت تھی، یہ حمایت سردار محمود قادر خان لغاری کی کامیابی کی صورت میں صوبائی نشت ان کے صاجزادے کےلیے مسلم لیگی اکابرین نے طے کردی تھی اور وعدہ فردالیکر حمایت کا اعلان کیا گیا، کارکنان کی حالت بھی دیدنی ہے، جو لوگ سید عبدالعلیم شاہ کے ساتھ تھے وہ حنیف خان پتافی کے ساتھ نظر آئے اور وہی چیئر مین لغاری سرداروں کے ساتھ آن ملے اب وہی لوگ پھر حنیف خان پتافی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کارکن کی تو اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی جہاں جماعت کے رہنما ھانک دیں ادھر کھڑے ہوجاتے ہیں ویسے برا نہ منائیں تو رہنماوں  کا بھی یہی حال ہے ۔

سید عبدالعلیم شاہ سابق ایم پی اے جو جماعت کے عتاب کا شکار ہوئے وہ بھی امیدواربن گئے لیکن سارے امیدوار لغاری سرداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے تو مرشد کو کسی نے پوچھا بھی نہیں۔ عوامی چہمیگوئیاں ہوہی رہی تھیں کہ وزیر اعظم سے ان کا رابطہ ہوگیا یا کسی نے کروایا ہوگا تاکہ مقابلہ دوشخصیات کے درمیان ہی رہے ۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز ُارٹی اقتدار تو باہمی طور پر انجوائے کررہے ہیں لیکن ضمنی انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہوسکی۔ 

خطروں کے کھلاڑی اور مرد حُر بھی مجبوری حالات کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ مسلم لیگ ن یا لغاری سرداروں کی سیاست عروج پر ہے ، لیکن ایک انجانا دھڑکا بھی ہے اوریہی وجہ ہے کہ سید عبدالعلیم شاہ کو بھی ساتھ ملالیا گیا اس طرح اب محمود و ایاز ایک ہی صف میں اور ایک پرچم کے سائے تلے سب ایک نظر آتے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے کہ تمام گروپس واقعی ایک ہیں یا سارے "بلوچکے پور" کے چکر میں ہیں۔

تمام امیدوار ایک طرف اور پاکستان پیپلز پارٹی یا کھوسہ سرداروں کا گروپ اور ووٹ بنک دوسری طرف ہے ، پی ٹی آئی اس صورتحال میں ابھی تک بائیگاٹ کا اعلان کرچکی ہے ہوسکتا ہے ان کا امیدوار میدان میں اتر آئے۔ یہ سارا کھیل ابھی باقی ہے۔ لیکن سردار دوست محمد خان کھوسہ جو بزرگ سیاسی رہنما سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے صاجزادے ہیں اور ان کے بھائی سردار سیف الدین کھوسہ جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور ان کے بھتیجے حلقہ این اے 185 کے امیدوار سردار دوست محمد خان کھوسہ کے ساتھ کام کرہے ہیں، تحریک انصاف کےخاموش کارکنان بھی اس حتمی انتخاب میں سردار دوست محمد خان کےلئے دلچسپی رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url