Visit Our Official Web مولانا محمد خان لغاری کا سانحہ ارتحال Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

مولانا محمد خان لغاری کا سانحہ ارتحال

احمد خان لغاری

ککوہ سلمان سے 


موت سے کسی کو مفر نہیں لیکن اچانک موت جو کسی اپنے پیارے کی ہو اس پر شدید صدمہ خود کسی موت سے کم نہیں ہوتا۔ مولانا محمد خان لغاری کا سانحہ ارتحال ان میں سے ایک ہے۔ جواکیس رمضان المبارک اور بائیس مارچ رواں سال ہم سے جدا ہوئے۔ انہوں نے مفتی خان محمد لغاری جو باعمل عالم دین تفسیر، حدیث اور فقہ کے استاد تھے، کے گھر آنکھ کھولی اور والد گرامی نے تربیت فرمائی۔ بچپن میں ہی ہم دونوں بھائیوں نے قرآن کی تعلیم حاصل کی، بعدازاں والد محترم نے دینی علوم کی بنیادی کتابیں پڑھانا شروع کیں۔ لیکن شومی قسمت والد کے سائے سے محروم ہوگئے۔ بعد ازاں یتیمی کے تھپڑوں کا مقابلہ کرتے رہے، مولانا محمد خان لغاری کی شخصیت پر والد مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کے انمٹ نقوش رہے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی طرف توجہ دی مگر یہ سب اپنے مسلک کی دینی و سیاسی جماعت میں شمولیت سے ہی ممکن تھا۔ جمعیت علما پاکستان ایک دینی و سیاسی جماعت نظام مصطفے کا نفاذ اور مقام مصطفے کے تحفظ کا علم لیکر میدان سیاست میں آچکی تھی۔ اسی جماعت سے متاثرانجمن طلبا اسلام کا قیامتھے۔ میں آیاتو یہ اس میں شامل ہوگئے اور بانی اراکین میں شامل تھے، تحریک کا ہراول دستہ میں ہونیکی وجہ سے کئی بار پس زنداں رہے، عدالتوں سے ضمانتیں ہوتیں تو دوسرے کیس میں گرفتار کر لیا جاتا۔ اسی طلباتنظیم سے وابستہ نوجوانوں کی اگلی منزل جمعیت علما پاکستان تھی انہوں نے شمولیت اختیار کر کے جماعت کے منشور کے مطابق اپنا سفر شروع کیا، 1970 کے عام انتخابات میں بعد ازاں وہ جمعیت کے ساتھ رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ختم نبوت کی تحریک اور سول نافرمانی کی تحریک میں گرفتار ہوتے رہے اور چین سے نہ بیٹھے جب تک قومی اسمبلی سے قادیانیوں کے خلاف آئین میں ترامیم پاس نہ ہوگئیں۔ رفتہ رفتہ وہ اعلی قیادت مولانا انشاہ احمد نوارانی صدیقی اور مجاہدملت مولانا عبدالستار خان نیازی کا اعتماد حاصل کرلیا۔ ڈیرہ غازی خان میں سیاسی کارکن ہونے کا ثبوت دیا اور حق بات کہنے کی پاداش میں ڈیرہ غای خان جیل میں قید رہے۔

نظام مصطفےٰ کی تحریک میں اپنی جماعت کی طرف سے اپنا کردار ادا کیا، قیدو بند کی صبعو تیں برداشت کرتے رہے۔ جماعت کے صوبائی عہدیدار اور موثر کردار کی وجہ سے اور نوجوان ہونے کی وجہ سے جذباتی رویہ رکھتے تھے۔ 1977 کے مارشل لائکے دور میں بھی وہ پیچھے نہ ہٹے ایم آرڈی کے پلیٹ فارم پر بھی جماعت کی نمائندگی کی اورمحترمہ بی بی بینظیر بھٹو شہید کے سامنے خطابت کے جوہر دکھانے کا موقع ملتا رہا اور ان کی نظر میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔ دوسری طرف ڈیرہ غازی خان کی مقامی سیاست یا انتخابی عمل میں عملی جدو جہد کا حصہ رہے۔ ڈیرہ غازی خان میں ختم نبوت کے حوالے سے اس تنظیم کے روح رواں مولانا اللہ وسایا کے ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد بھی ان کے صاحبزادے مولانا عبدالرحمن غفاری کواپنے ساتھ رکھا۔ ایک تحریک کے نتیجے میں مولانا اللہ وسایا مرحوم اور برادر محترم پرپولیس نے بہت تشدد کیا دونوں ایک گلی میں زخمی پڑے تھے جنہیں وہاں سے ہسپتال لایا گیا اور پولیس کی نگرانی میں رہے۔ ڈیرہ غازی خان سے ایک بار پھر لاہور چلے گئے اور وہاں راوی روڈ پر ایک مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کردیا اور ساتھ ہی رہائش اختیار کرلی۔ قارئین کرام، وہ اپنی جماعت کے دوٹکڑے ہونے پر غمزدہ رہے، مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدلستار خان نیازی کے علیحدہ ہونے پر ان کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ دیگر گروپوں کو بھی بہت قریب سے دیکھا اور جماعت کے دوٹکڑے ہونے پر وہ ذمہ داران کو جانتے تھے اور بہت سے رازوں کا میں بطور بھائی امین ہوں۔ بعد ازاں جماعت متحد ہوگئی لیکن ان رہنماؤں اور کارکنوں کے جذبے ماند پڑ چکے تھے۔ 

برادرم محمد خان لغاری لندن روانہ ہوگئے اور وہیں دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام شروع کردیا اور آنا جانا لگا رہا برطانیہ رہنیکے بعد بھی انہوں نے اپنی مسجد کی توسیع اور تزئین کا سلسلہ جاری رکھا۔ مولانا محمد خان لغاری ختم نبوت تحریک کے مرکزی سکریٹری جنرل بھی رہے، علما کونسل کے عہدیدار کے ساتھ انہیں متحدہ علما بورڈ پنجاب کے رکن تھے۔ انہیں مرکزی رویت حال کمیٹی کارکن بھی بنایا گیا۔ جمعیت علما پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سکریٹری جنرل تھے لیکن جماعت غیر فعال ہوچکی تھی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کو ہی اپنا قائد سمجھا اور اپنے قائد کی وفات تک ان کے وفادار رہے، ڈیرہ غازی خان آمد پر وہ ہمیشہ ان کے ہی مہمان ہوتے تھے۔ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا، برطانیہ کے علاوہ ایران، عراق، لیبیا کے علاوہ سپین، اٹلی یونا اور دیگر ممالک کے دورے کیے جماعت کے منشور اور دستور کے مطابق مقبول نعرہ نظام مصطفے کا نفاز اور مقام مصطفیکیتحفظ کی ناکامی سے بے حدمایوس تھے۔ انہوں نے بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی پربھر پور کردار اداکیا ضلعی سطح پر امن کمیٹیوں کی تشکیل اور بین المذاہب بھائی چارہ پر حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے ہمیشہ تعاون کیا۔ گذشتہ رمضان المبارک میں راوی روڈ پر اپنی رہائش گاہ پر ماہ صیام گذارہے تھے کہ ہلکا بخار ہوا اور پھر دوسرے دن طبیعت اچانک خراب ہوئی اور اکیس رمضان المبارک (22مارچ)کو دل کا دورہ ہوا ور ہسپتال پہنچنے تک اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انہیں چھوٹے بھائی کے پہلو میں دفن  کیا گیا۔ (انا للہ واناالیہ راجعون) 

ان کے جسد خاکی کو ڈیرہ غازی خان لایا گیا۔ پسماندگان میں تین بیٹے اورایک  بیٹی اورتین بھائی سوگوار ان کے بیٹے لندن میں مقیم تھے جنہیں اطلاع دی گئی اور وہ دوسرے دن پہنچ گئے تو ڈیرہ غازی خان قصبہ گدائی کی مرکزی عید گاہ میں ان کا نماز جنازہ اداکیا گیا۔ ان کے دیرینہ ساتھی صوفی محمد بلال نے نماز جنازہ پڑھایا۔ صاجزادہ محفوظ مشہدی شدید علالت کے باوجود منڈی بہاؤ لدین سے تشریت لائے، دیگر شہروں سے بری تعدادمیں لوگوں نے شرکت کی، ڈیرہ غازیخان کے ہر طبقہ کے لوگوں نے شرکت کی۔ بعد ازاں ان کے دوست اور ساتھی تعزیت کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔ تحریک ختم نبوت کے مبلغ مولانا اللہ وسایا تشریف لائے اوربعد ازاں ان کی خدمات پر ان کا مضمون بھی شائع ہوا۔مذہبی اور دینی شخصیات میں صاجزادہ سید اکرم شاہ آف گڑھی شریف،سجادہ نشین لاڈن شریف، پیر آف بھرچونڈی شریف (پیر عبدالخالق)امیر جماعت اہلسنت، پیر آف پٹھان تونسہ شریف خواجہ عبدالمناف خصوصی طورپر تعزیت کے لیے تشریف لائے،سید عبد الخبیر آزاد چیئر مین مرکزی رویت حلال کمیٹی اپنے وفد کے ہمراہ تشریف لائے، جمعیت علما اسلام مولانا جمال ناصر بین المذاہب کمیٹی کے ارکان کے ہمراہ اور جماعت اسلامی کے رہنما شیخ عثمان فاروق کے علاوہ دیگر سیاسی،مذہبی کارکنان کے علاوہ وکلا، کاروباری شخصیات، صحافی حضرات تمام کے شکر گزار خصوصا مظہر خان لاشاری جو ان کے بہت اچھے دوست تھے۔ سب کے شکر گزار ہیں کہ وہ تشریف لائے۔  سیاسی شخصیات میں سردار اویس خان لغاری سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ سردار محمود قادر خان لغاری بھی تشریف لائے۔ برطانیہ، امریکہ، کینڈا، سپین سے تعزیتی فون کالز موصول ہوئیں۔ پچپن سالہ جدوجہد کے بعد ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔ 

مولانا محمد خان لغاری کی وفات ان کے خاندان اور قبیلے کا بھی نقصان ہے جو معاملات کو برادری میں نمٹا دیتے تھے۔ علمی، مذہبی شخصیت کے حوالے سے تویہی کہا جاسکتا ہے کہ موت العالم موت العالم آخر میں منڈی بہاؤدین سے ان کے عزیز خاص پروفیسر محمد فیصلگوندل جو ان کے بہت قریب رہے ہیں جو اسی رات ڈیرہ غازی خان پہنچے انہوں نے لکھا ہے کہ مولانا بہت شفیق تھے وہ والدہ کی طرح تھے نہایت نرم اور شفیق! اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور کروٹ 

کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔ ہماری والدہ محترمہ ہمیشہ ان کی راہ تکتی رہتی تھیں آج بھی وہ اپنے بیٹے کے انتظار میں ہیں اللہ پاک انہیں صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین۔

 

Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url