پاکستان میں نیا سیاسی خلفشار چہ جائیکہ؟
میجر (ر) ساجد مسعود صادق
پاکستانی تاریخ کا تسلسل کے ساتھ ایک المیہ ہے کہ پاکستان میں اٹھہتر سالوں میں ہمیشہ سیاسی خلفشار اور انتشار رہا اور جب بھی پاکستان مضبوط ہونے لگا یا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونےکو آیا تو اسے ایک نئے بحران نے آن لیا۔ اس کی بُنیادی وجوہات دو ہیں ایک تو پاکستان کی بین الاقوامی سیاست میں اہمیت یا کردار اور دوسرا عسکری وسیاسی قیادت میں رقابت جس کا ہمیشہ بیرونی قوتوں نے فائدہ اُٹھایا ہے۔ اس کی بہترین اور ناقابل تردید مثالوں میں بھٹو ۔ ایوب جوڑی، بھٹو۔ ضیاء جوڑی، مُشرف ۔ نوازشریف جوڑی اور باجوہ ۔عمران جوڑی اور اُن کے آپس کے تعلقات و معاملات شامل ہیں۔ اسی کشمکش سے بیرونی قوتوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو کئی دفعہ بحرانوں سے دوچار کیا۔ اس وقت ان دیکھی اور انجانی قوتیں اس رقابت کو عمران اور فیلڈ مارشل سید عاصم مُنیر کے معاملات اور تعلقات سے جوڑنے کی کوشش کررہی ہیں جبکہ الاقوامی سیاسی ماحول پاکستان کو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے لیئے اس سے بہتر اور سازگار حالات نہ پہلے کبھی ہوئے اور نہ کبھی ہوں گے۔
پاکستان میڈیا میں جہاں آجکل بڑے شدّومد کے ساتھ عمران خان کی رہائی کا چرچا ہورہا ہے وہیں پی ٹی آئی کی طرف سے ایک نئی احتجاجی تحریک کی خبریں بھی عام ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی اور بین الاقوامی تاریخ کے اتنے اہم اور نازک موڑ پر کیا پاکستان ایک نئی سیاسی کشمکش افورڈ کرسکتا ہے کہ جس میں احتجاجی جلسے جلوس ہوں اور سیاستدان پھر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیں۔ اور اگر حالات ایسے ہی ہیں جیسے میڈیا ڈھول بجارہا ہے تو کیا موجودہ حکومت جاری رہے گی یا موجودہ سیاسی سیٹ اپ نے جو عمران حکومت کے ساتھ کیا تھا اِن کے ساتھ بھی وہی ہونے جارہا ہے؟ لیکن اس میں پاکستان کو کیا ملے گا یہ سوال ہر پاکستان کے ذہن میں آنا چاہیئے۔ یہ سوال اس لیئے بھی اہم ہے کہ مُلکوں کی ترقی کا راز سیاسی استحکام میں ہے جبکہ پاکستان ایسی داغدار تاریخ رکھتا ہے کہ اس کا کوئی ایک وزیراعظم بھی اٹھہتر سالوں میں اپنی پانچ سالہ ٹرم پوری نہیں کرسکا۔کیا یہ بیرونی مداخلت ہے یا پاکستانی قائدین میں صلاحیتوں کی کمی کہ وہ بین الاقوامی سیاست کا کھلونا بنکر پاکستانی مُفاد کو سرے سے ذہن سے نکال دیتے ہیں۔
اپریل، مئی اور جون کے مہینوں میں جس طرح بین الاقوامی اور جنوبی ایشیاء کی سیاست میں جو تبدیلیاں آئیں وہ پاکستان کے لیئے انتہائی مُفید اور مؤثر ثابت ہوئیں۔ فالس فلیگ پہلگام، آپریشن سندور اور بنیان مرصوص ایک پیکیج تھا جس میں بھارت عسکری، سیاسی اور سفارتی میدانوں میں پاکستان کے ہاتھوں چاروں شانے چت ہوا۔ دوسری جانب اسرائیل نے بھارت ہی کی طرح کی ایران پر جارحیت کردی اور آخری لمحات میں امریکی بی 25 بمبار طیاروں نے بھی ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے انہیں مکمل طور پر تباہ کرنے کا دعوٰی کیا۔ اس تھوڑے سے عرصے میں ایسے لگ رہا تھا کہ پاکستان کی سیاسی اور معاشی ٹ"ریجیکٹری (اٹھان) بڑی تیزی سے بُلندی کی طرف بڑھی۔ لیکن مُفکرین، تجزیہ نگاروں اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والے عام لوگوں کی فہم سے بھی یہ بات بالاتر تھی کہ امریکی "چم" بھارت اور اسرائیل میں ایک (بھارت) کے خلاف ڈائریکٹ جنگ اور دوسرے (اسرائیل) کے خلاف سفارتی محاذ پر ڈٹ جانے والا پاکستان اور اُس کی قیادت "امریکی آنکھوں کا تارا" کیونکر ہوسکتے ہیں؟
آج پاکستان کے لیئے بین الاقوامی سیاسی ماحول انتہائی سازگار ہے کیونکہ پاکستان کا ازلی دُشمن بھارت بُری طرح سے پِٹ چُکا ہے اور امریکی صدر بظاہر امن کا راگ الاپ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے مقابلے پر روس اور چین اُس سے آج کہیں زیادہ مضبوط بھی ہیں اور پاکستان کی جتنی امریکہ اور روس کو ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ چین اور روس کو ہے۔گویا بین الاقوامی سیاست کا شہسوار اور نمبر ون کون ہے اس فیصلے کی چابی اور اختیار پاکستان کے پاس ہے۔ لین یہ سوال سو ملین ڈالر کا ہے کہ کیا پاکستانی قیادت اس سے فائدہ اُٹھا سکے گی؟ کیونکہ گذشتہ چند سالوں میں جس طرح پاکستانی سیاست میں نفرتوں کو پروان چڑھایا گیا ہے اور اس میں افواج پاکستان کے کردار کو بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے یہ بھی اس موقعہ سے فائدہ اُٹھانے میں ایک رکاوٹ بن سکتی ہے۔ نازک معیشت، عوام کی بدحالی اور پاکستان کے اندر سیاسی خلفشاری صورتحال کسی طور بھی پاکستان کے حق میں نہیں۔ اب اس خلفشار کو بند کرنے کا مناسب وقت آگیا ہے ورنہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
پاکستان میں سیاسی خلفشار کا باب اگر ہمیشہ کے لیئے بند کرنا ہے تو اس رقابت کا سائنسی بُنیادوں پر جائزہ نہ لیا جانا ضروری ہے۔ اس ضمن میں پہلا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس رقابت کی وجہ ہے کیا؟ کیا یہ پاکستانی آئین میں کوئی سُقم ہے جس نے عسکری و سیاسی رقابت کو جنم دیا ہے یا پھر عسکری وسیاسی قائدین کے ذاتی نظریات یا ادارہ جاتی رقابت بھی ہوسکتی ہے اور آخری ممکنہ وجہ پاکستان میں اٹھہتر سال سے رائج وہ "جعلی جمہوری" افکار ہیں جن کے مطابق آرمی چیف سویلین وزیراعظم کے ماتحت ہے اور ہر وزیراعظم نے آرمی چیف کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش میں اُسے اُس کے منسب کے مطابق مقام نہیں دیا؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو تمام سیاسی قائدین اور عسکری قائدین کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا دیرپا حل تلاش کرنا چاہیئے۔ عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان گیپ اور باہمی رقابت سے پاکستان دُشمن قوتوں نے اسی رقابت سے بہت فائدہ اُٹھالیا ہے جس کا اب روشن مُستقبل کا خواب دیکھنے والا پاکستان مزید مُتحمل نہیں ہوسکتا۔
اس وقت پاکستان میں سیاسی خلفشار سوائے پاکستان دُشمن قوتوں کے کسی اور کا ایجنڈا نہیں ہوسکتا اور ان قوتوں میں سب سے پہلا نمبر بھارت کا ہے۔ اسی طرح چین اور روس سے بڑھتی پاکستانی قربت کی وجہ سے امریکہ بھی یقیناً یہی چاہے گا۔ بھارت تو پاکستان کے ساتھ کُھلم کُھلا دُشمنی کرتا ہے اس میں کوئی دورائے نہیں لیکن امریکی واردات تھوڑی ٹیکنیکل اور قدرے خُفیہ ہوتی ہے۔ جس طرح بھارت بلوچستان اور کے پی کے میں "فتنةالہندوستان اور فتنة الخوارج" کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرتا چلا آیا ہے اسی طرح امریکہ بھی پاکستان کے اندر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اپنی ہم خیال عسکری اور سیاسی قیادت کے لیئے ہمیشہ سے کوشش کرتا رہا ہے۔ امریکہ مخالف چین ۔ روس اتحاد کی مضبوطی اور پاکستان کے ساتھ اُنکی بڑھتی قربت کی موجودگی میں امریکی پریشر کو خاطر میں لائے بغیر بھی پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کو دُنیا میں اہم مقام دلانے میں عسکری و سیاسی قیادت کی رقابت کا قلع قمع ناگزیر ہے۔