بارشوں سے تباہی اور بے شرمی کا طوفان
شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے خیبر پختون خواہ اورگلگت بلتستان میں شہروں اور قصبوں کو ملیا میٹ کردیا، جہاں شہر، قصبے اور بستیاں آباد تھیں آج وہاں پتھر، مٹی اور جنگلات کی لکڑیاں ہیں، لاشیں پڑی ہیں، سینکڑوں مرد و خواتین گم ہیں، لاپتہ ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ اگرچہ ہمارے لیے نیا نام ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے ہمارے پہاڑی علاقوں کو نشانہ بتایا ہے اور اس قیامت میں ہمارا بھی بہت قصور ہے جس طرح سیلابی ریلوں میں قیمتی لکڑیاں سفر کرکے شہری علاقوں میں پہنچی ہیں انہوں نے ساری کہانی کھول کر بتا دی ہے اور دکھادی ہے۔ لکڑی چور مافیا اور انکے آقاؤں نے وہ قیامت صغرا بر پاکر دی ہے جسکی تحقیقات ہونگی یا نہیں ہونگی تو بھی کوئی نتائج برآمد نہیں ہونگے کیونکہ اس پر چم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔ مون سون کے ابھی اور سپیل آنا باقی ہیں، اور کتنی تباہی ہمارے مقدر میں لکھی ہے۔ یہ آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آئے گا۔ پھر تفصیلی لکھا جاسکے گا آج یہ میرا موضوع نہیں ہے لیکن اگست کے مہنے میں خصوصی طور پر 14اگست کو زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں غیر معمولی کارکردگی دیکھانے والی شخصیات کو خصوصی اعزارات سے نوازا گیا۔ شخصیات کی شبانہ روز محنت بھی آپ کے سامنے ہے نام آپ کو مل جائیں گے تو آپ بھی کسی نتیجے پر پہنچ پائیں گے اگر کچھ شخصیات اس بار شامل نہیں کی جاسکیں تو کوئی بات نہیں پھر کسی اور موقع پر انہیں نواز دیا جائیگا، سیلاب کی تباہ کاریوں سے دل دکھا اور سچی بات ہے کہ چودہ اگست کے حوالے سے اعزازات کی تقسیم پر بھی دل دکھا ہے، چلورہنے دیتے ہیں مگر ایک اہم واقع کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں، پاکستان میں خواتین کے کپڑوں کے ایک بڑے برینڈ کی مالک محترمہ ماریہ بی کی طرف سے ایک نشویشناک خبر شوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہے، انہوں نے ایک ویڈیو دکھاتے ہوئے یہ بتایا کہ اگست کے مہینے میں ہی لاہور میں ایک جگہ ہم جنس پرستی یعنی LGBTQکا ایک شو منعقد کیا گیا جس میں ہم جنس پرست مردوں نے جو اپنے آپ کو ٹرانسجینڈر کہتے ہیں، بے شرمی اور بے ہودگی کے تمام ریکارڈ توڑدیے اور یہ سب بے شرمی اور بے غیرتی پاکستانی معاشرے میں پھیلانے کیلئے باقاعدہ اسٹیج پر ہم جنس پرستی کوپرموٹ کیا گیا، بے غیرتی اور بے شرمی کے اس شو کی کچھ جھلکیاں بھی دکھائی گئی۔ ماریہ بی صاحبہ کا کہنا تھا کہ حکام یعنی پنجاب حکومت کو بے شرمی اور بے غیرتی کے اس شو کے متعلق علم تھا لیکن حکومت نے اسے نہیں روکا
یہ ویڈیو ز جب سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں تو چند ذمہ دار صحافی اور غیر ت مندروحوں نے اس مسئلہ پر آواز اٹھائی تو پنجاب حکومت کے بااختیار لوگوں نے اس بات کا نوٹس لیکر پولیس کو ایکشن لینے کی ہدایات جاری کردی گئیں، اس کے نتیجے میں شو منعقد ہونے اور اجازت دینے والوں پر ہاتھ ڈالا گیا یا نہیں یہ تو تا حال معلوم نہیں ہوسکا لیکن سوال ہے کہ کن حکام کو اس سارے پروگرام کا پہلے سے علم تھا اور یہ سب روکنے کیلئے کیاکیا گیا؟ پنجاب کی سینئر وزیر محترمہ مریم اونگزیب کا کہنا تھا کہ کسی بھی ایسی حرکت قابل بر داشت نہیں اوراس پر ایکشن لیا جائیگا، اس گندگی اور بے غیرتی اور بے حیائی کو نہ روکا گیاتو ہمارے معاشرے اور آنے والی نسلیں تباہ ہو جائیں گی۔ ہم جنس پر ستی کی لعنت کو جس انداز میں مغرب پوری دنیا میں ایکسپورٹ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس سے ہمیں اپنی نسلوں کو ہر صورت بچا ناہے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے لیکن سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت وقت کی ہے، پنجاب حکومت کی ہے جس کی سربراہ ایک خاتون ہے، عدلیہ،مقننہ،میڈیا سب کو اس لعنت سے روکنا ہے اور ہماری عدلیہ جو پہلے ہی محنیف اور ناتوان نظر آتی ہے اس پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوچکی ہے کہ جو لوگ اس ایل جی بی ٹی کیو جیسی لعنت کو قانونی شکل دینے کیلئے کوشاں ہیں انہیں روکنا ہے۔ ٹرنسجینڈر کے نا پر ہم جنس پرستی کو پھیلا یا جارہا ہے اس کو روکنا ہے، میڈیا کا ایک طبقہ انسانی حقوق اور آزادی کے نام پر ہم جنس پرستی کو پھیلانے کیلئے فلموں ڈراموں اور ٹی وی شوز کو بھی استعمال کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اگرہم نے بحیثیت قوم ہیں جنس پرستی جیسی لعنت کو نہ روکا تو یہ گھر گھر پھیل جائیگی اور یہ ذمہ داری سب کی بنتی ہے
قارئین کرام! برائیاں ہر معاشرے میں ہوتی ہیں لیکن ہم جنس پرستی، ریپ، اغوا کو کسی کا ایجنڈا سمجھ کر باہر سے آتی ہوئی رقوم کیلئے یہ سب کچھ کرنا جہاں ہمارا معاشرہ قابل نفرت بن جائیگا بلکہ اسلام کے سنہری اصولوں کے خلاف بغاوت بھی ہے، خاتون وزیر اعلی کے صوبے میں یہ بے عزتی اور سونے پر سہاگہ، ہمارے مذہبی لوگ، علما، مشائخ سیاسی مذہبی جماعتیں کیوں خاموش ہیں؟ میرے خیال میں مذہبی جماعتوں کو خاموش رہنے کا ہی کردار سونپا گیا ہوگا۔ 14اگست کو پاکستان کا قیام معرض وجود میں آیا اور اس ماہ اور جشن آزادی کے یہ پہلو ہونگے تو پھر اور قیامت کیا ہوگی جو خیبر پختونخواہ اور دیگر پہاڑی علاقوں میں جو قیامت صغرا برپا ہوگئی ہے تو ابھی کس قیامت کا ہمیں انتظار ہے۔ شہر تباہ ہوگئے، لوگ بے گھر ہوگئے، ہزاروں لوگ ملبے تلے زندہ دفن ہوگئے، افسوس صد افسوس!